(تریاق القلوب، اشتہار واجب الاظہار ص۳، خزائن ج۱۵ ص۵۲۴) پر لکھتے ہیں کہ: ’’میں انگریزی سلطنت کے ماتحت مبعوث کیاگیا‘‘ اور مرزاقادیانی نے (تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۹، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۱) پر یہ لکھ دیا ہے کہ: ’’میں سرکار انگریزی کا خود کاشتہ پودا ہوں‘‘ اور پھر (شہادۃ القرآن، اشتہار گورنمنٹ کی توجہ کے لائق ص۳، خزائن ج۶ ص۳۸۰) پر بھی مزید تشریح موجود ہے۔ لکھتے ہیں کہ: ’’سو میرا مذہب جس کو میں باربار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا اطاعت کریں۔ دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو۔ جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے۔‘‘
الحاصل!یہ کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی نبوت خداداد نہیں تھی بلکہ انگریزوں نے اسے نبی بنایا تھا۔ اس لئے انگریزوں کی حمایت کے لئے مرزاقادیانی نے پچاس الماریاں کتابوں کی لکھ کر تمام ممالک اسلامیہ میں وہ کتابیں شائع کیں اور دوسری بات یہ بھی یاد رکھیں کہ مرزاقادیانی نے ۸۲ کے قریب کتابیں اور اشتہار شائع کئے ہیں جن سے بمشکل ایک الماری بھرے۔ لیکن مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ میں نے اتنی کتابیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ کھلم کھلا مکر اور جھوٹ ہے۔
جھوٹ نمبر:۴۸… مرزاقادیانی اپنی کتاب (حقیقت الوحی ص۲۹،خزائن ج۲۲ ص۳۱) پر رقم طراز ہیں کہ: ’’یہ غیرمعقول بات ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی آنے والا ہے کہ لوگ نماز کے لئے مساجد کی طرف دوڑیں گے تو وہ کلیسا کی طرف بھاگے گا اور جب لوگ قرآن شریف پڑھیں گے تو وہ انجیل کھول بیٹھے گا اور جب عبادت کے وقت بیت اﷲ کی طرف منہ کریں گے تو وہ بیت المقدس کی طرف متوجہ ہوگا اور شراب پیئے گا اور سور کھائے گا اور اسلام کے حلال وحرام کی کچھ پرواہ نہ کرے گا۔‘‘ اس عبارت میں چھ فقرے ہیں جو سب کے سب جھوٹے ہیں۔ مسلمانوں کا عقیدہ ۱۴۰۰ برس سے یہ چلا آتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مکرر نزول کے بعد شریعت محمدی پر عمل کریں گے۔ پھر معلوم نہیں کہ اس کے خلاف مرزاقادیانی نے کس کتاب سے یہ فقرے نقل کر دیئے۔ کیا کوئی مرزائی بتاسکتا ہے۔ ہرگز نہیں پس یہ سب جھوٹی باتوں کا مجموعہ محض ہرزہ سرائی ہے اور مرزاقادیانی اپنی کتاب (حقیقت الوحی ص۲۰۶، خزائن ج۲۲ ص۲۱۵) پر لکھتے ہیں کہ: ’’جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے۔‘‘ اب آپ حضرات فیصلہ کریں کہ مرزاقادیانی نے گوہ کھایا ہے یا نہیں؟
جھوٹ نمبر:۴۹… ریویو بابت ماہ ستمبر ۱۹۰۲ء کے ص۲۴۰ میں قول مرزا مسطور ہے: ’’اب تک