سے عاجز رہ جائیں۔ پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ میرا باپ سرکار انگریزی کے مراحم کا ہمیشہ امیداوار رہا اور عند الضرورت خدمتیں بجالاتا رہا۔ یہاں تک کہ سرکار انگریزی نے اپنی خوشنودی کی چٹھیات سے اس کو معزز کیا اور ہر ایک وقت اپنے عطاؤں کے ساتھ اس کو خاص فرمایا اور اس کی غمخواری فرمائی اور اس کی رعایت رکھی اور اس کو اپنے خیرخواہوں اور مخلصوں سے سمجھا۔ پھر جب میرا باپ وفات پاگیا تب ان خصلتوں میں اس کا قائمقام میرا بھائی ہوا جس کا نام مرزاغلام قادر تھا اور سرکار انگریزی کی عنایات ایسی ہی اس کے شامل حال ہوگئیں۔ جیسی کہ میرے باپ کے شامل حال تھیں اور میرا بھائی چند سال بعد اپنے والد کے فوت ہوگیا۔ پھر ان دونوں کی وفات کے بعد میں ان کے نقش قدم پر چلا اور ان کی سیرتوں کی پیروی کی۔ لیکن میں صاحب مال اور صاحب املاک نہیں تھا۔ سو میں اس کی مدد کے لئے اپنے قلم اور ہاتھ سے اٹھا اور خدا میری مدد پر تھا اور میں نے اسی زمانہ سے خداتعالیٰ سے عہد کیا کہ کوئی مبسوط کتاب بغیر اس کے تالیف نہیں کروں گا۔ جس میں احسانات قیصرۂ ہند کا ذکر نہ ہو۔ نیز اس کے ان تمام احسانوں کا ذکر ہو جس کا شکر مسلمانوں پر واجب ہے۔ ‘‘ (نورالحق حصہ اوّل ص۲۹، خزائن ج۸ ص۳۹)
’’دوسرا امر قابل گذارش یہ ہے کہ میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک جو تقریباً ساٹھ برس کی عمر تک پہنچا ہوں اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں۔ تا مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد وغیرہ کے دور کروں جو ان کو دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے روکتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں پر میری تحریروں کا بہت ہی اثر ہوا ہے اور لاکھوں انسانوں میں تبدیلی پیدا ہوگئی ہے اور میں نے نہ صرف اسی قدر کام کیا کہ برٹش انڈیا کے مسلمانوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی اطاعت کی طرف جھکایا بلکہ بہت سی کتابیں عربی اور فارسی اور اردو میں تالیف کر کے ممالک اسلامیہ کے لوگوں کو بھی مطلع کیا کہ ہم لوگ کیونکر امن اور آرام اور آزادی سے گورنمنٹ انگلشیہ کے سایہ عاطفت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘‘ (درخواست بحضور نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر دام اقبالہ، منجانب خاکسار مرزاغلام احمد از قادیان مورخہ ۲۴؍فروری ۱۸۹۸ئ، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۱)
’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور اطاعت میں گذرا ہے اور میں