مہینہ کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ حصہ چہارم ص۵۵۶ میں درج ہے، مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا۔ پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا اور خدا نے براہین احمدیہ کے وقت میں اس سر مخفی کی مجھے خبر نہ دی۔‘‘
(کشتی نوح ص۴۷، خزائن ج۱۹ ص۵۰)
’’مکاشفات اکابر اولیاء بالاتفاق اس بات پر شاہد ہیں کہ مسیح موعود چودھویں صدی سے پہلے چودھویں صدی کے سر پر ہوگا اور اس سے تجاوز نہ کرے گا۔ چنانچہ ہم نمونے کے طور پر کسی قدر اس رسالہ میں لکھ بھی آئے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس وقت بجز اس عاجز کے اور کوئی شخص دعویدار اس منصب کا نہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۸۵، خزائن ج۳ ص۴۶۹)
’’ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت جو ظہور موعود کا وقت ہے کسی نے بجز اس عاجز کے دعویٰ نہیں کیا کہ میں مسیح موعود ہوں بلکہ اس مدت تیرہ سو برس میں کبھی کسی مسلمان کی طرف سے ایسا دعویٰ نہیں ہوا کہ میں مسیح موعود ہوں۔ یقینا سمجھو کہ نازل ہونے والا ابن مریم یہی ہے جس نے عیسیٰ بن مریم کی طرح اپنے زمانے میں کسی ایسے شیخ والد روحانی کو نہ پایا جو اس کی روحانی پیدائش کا موجب ٹھہرتا تب خداتعالیٰ خود اس کا متولی ہوا اور تربیت کی، کنار میں لیا اور اس بندہ کا نام ابن مریم رکھا۔ پس امکانی طور پر یہی عیسیٰ بن مریم ہے جو بغیر باپ کے پیدا ہوا۔ کیا تم ثابت کر سکتے ہو کیا تم ثبوت دے سکتے ہو کہ تمہارے سلاسل اربع میں سے کسی سلسلے میں داخل ہے۔ پھر یہ اگر ابن مریم نہیں تو کون ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۵۹، خزائن ج۳ ص۴۵۶)
نبوت کا اعلان
اس ضمن میں خود مرزاقادیانی کیا فرماتے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے: ’’جس بناء پر میں اپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں وہ صرف اس قدر ہے کہ میں خداتعالیٰ سے ہم کلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا ہے اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جب تک انسان کو اس کے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو دوسرے پروہ اسرار نہیں کھولتا اور ان ہی امور کی کثرت کی وجہ سے اس نے میرا نام نبی رکھا، سو میں خدا کے حکم کے مطابق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہو گا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیوں کر انکار کر سکتا ہوں۔ میں اس پر قائم ہوں۔ اس وقت تک جو اس دنیا سے گذر جاؤں۔‘‘ (مرزاغلام احمد قادیانی کا خط مورخہ ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ئ، بنام اخبار عام لاہور، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۹۷، حقیقت النبوت ص۲۷۰،۲۷۱)