ف… مرزا قادیانی کی اس تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا معجزہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرح عقلی تھا اورشعبدہ بازی کی قسم سے اور دراصل بے سود تھا۔
اور (ازالہ اوہام ص۳۰۴، خزائن ج۳ص۲۵۵)میںلکھتے ہیں:’’ ماسوائے اس کے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے اعجاز طریق عمل الترب یعنی مسمریزم سے بطور لہو و لعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آسکیں۔‘‘
ف… اس تحریر سے بھی صاف ظاہر ہے کہ مرزا قادیانی کے نزدیک مسیح علیہ السلام کا معجزہ از قسم عمل الترب یعنی مسمریزم بطور لہو ولعب کے تھانہ بطورحقیقت۔
اور (ازالہ اوہام ص۳۰۹، خزائن ج۳ص۲۵۷)میں تحریر کرتے ہیں:’’ بہرحال مسیح کی یہ تربی کارروائیاں زمانہ کے مناسب حال بطورخاص مصلحت کے تھیں۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان اعجوبہ نمائیوں میں حضرت ابن مریم سے کم نہ رہتا۔‘‘
ف… مرزا قادیانی کی اس تحریر سے ظاہر ہے کہ مسیح علیہ السلام کے معجزات تربی تھے اور قدر کے لائق نہ تھے اورقابل نفرت تھے۔ افسوس ہے ایسے متکبر کے عقل پر جس کے نزدیک مسیح علیہ السلام کے وہ معجزات جو باذن اﷲ تعالیٰ تھے۔ تربی اورقدر کے لائق نہ ہوں اورقابل نفرت ہوں۔ اﷲ کی پناہ ایسے برے عقیدہ سے۔
اور (ازالہ اوہام ص۳۱۰، خزائن ج۳ص۲۵۸)میں تحریر کرتے ہیں:’’ یہی وجہ ہے کہ گو حضرت مسیح جسمانی بیماریوں کو اس عمل کے ذریعہ سے اچھاکرتے رہے مگر ہدایت اور توحید اور دینی استقامتوں کو کامل طور پر دلوں میں قائم کرنے کے بارے میں ان کی کارروائیوں کا نمبر ایسا کم درجہ کا رہا کہ قریب قریب ناکام رہے۔‘‘
اور (ازالہ اوہام ص۳۲۲،خزائن ج۳ص۲۶۳)میں لکھتے ہیں:’’ غرض یہ اعتقاد بالکل غلط اور فاسد اورمشرکانہ خیال ہے کہ مسیح علیہ السلام مٹی کے پرند بناکر اور ان میں پھونک مار کر سچ مچ کے جانور بنادیتاتھا۔ نہیں بلکہ صرف عمل الترب تھا جو روح کی قوت سے ترقی پذیر ہوگیاتھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مسیح ایسے کام کے لئے اس تالاب کی مٹی لاتا تھا جس میں روح القدس کی تاثیر رکھی گئی تھی۔