جب خود نبی ہی اپنی نبوت سے انکار کرے تو وہ پرلے درجہ کا کافر ہوگا۔ اسی کو محمد علی لاہوری مرزائی نے ان الفاظ میں ادا کیا ہے۔
(مسیح موعود وختم نبوت ص۱۲،۱۳حاشیہ)’’میاں محمود احمد صاحب حضرت صاحب کوایک خطرناک فتویٰ کے ماتحت لاتے ہیں… وہ یہ کہ نبی کی نبوت سے انکار کفر ہے۔ پس اگر حضرت صاحب کو خدا نبی کہتا تھا اور آپ فی الواقع نبی ہی تھے۔مگر بایں ہمہ زور سے نبوت کاانکار کرتے، بلکہ مدعی نبوت پرلعنت بھیجتے تھے۔ تو کیا آپ کفر کے فتویٰ کے ماتحت نہیں آئے؟ یقینا اگر نبی اپنی نبوت سے انکار کرے تو وہ سب سے بڑ ھ کر کافر ہے۔ کیونکہ دوسروں کو کہنے والا تو انسان ہے۔ مگر اسے خود خدا کہتا ہے۔‘‘ اور مرزا قادیانی نے اپنی نبوت سے انکار کر دیا۔
(ازالہ اوہام ص۵۳۳، خزائن ج۳ص۳۸۶)’’نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو خدا کے الہام کے موافق کیا گیا ہے۔‘‘
(جنگ مقدس ص۶۷، خزائن ج۶ص۱۵۶)’’میرا نبوت کا کوئی دعویٰ نہیں، یہ آپ کی غلطی ہے یا آپ کسی خیال سے کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جو الہام کا دعویٰ کرتا ہے وہ نبی بھی ہو جائے۔ میں تو محمدی اور کامل طور پراﷲ و رسول کا متبع ہوں اور ان نشانوں کا نام معجزہ رکھنا نہیں چاہتا۔ بلکہ ہمارے مذہب کے رو سے ان نشانوں کا نام کرامت ہے۔‘‘
مرزاقادیانی نے حضرت مسیح کو گالیاں دیں
اوراس کے جواب کی تردید،پہلا حصہ
اول تو ہم ثابت کریں گے کہ واقعی مرزا قادیانی نے حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں بدزبانی کی ہے۔
(براہین احمدیہ ص۳۶۸،خزائن ج۱ص۴۴۰حاشیہ)’’بلکہ ایک ضعیفہ عاجزہ کے پیٹ سے تولد پا کر (بقول عیسائیوں) وہ ذلت اور رسوائی اور ناتوانی اور خواری عمر بھر دیکھی کہ جو انسانوں میں سے وہ انسان دیکھتے ہیں کہ جو بد قسمت اور بے نصیب کہلاتے ہیں اور پھر مدت تک ظلمت خانہ رحم میں قید رہ کر اور اس ناپاک راہ سے کہ جو پیشاب کی بدرو ہے، پیدا ہو کر ہر قسم کی آلودہ حالت کواپنے اوپر وارد کر لیا اور بشری آلودگیوں اور نقصانوں میں سے کوئی ایسی آلودگی باقی نہ رہی جس سے وہ بیٹا باپ کا بدنام کنندہ ملوث نہ ہوا… (ص۳۶۹،خزائن ج۱ص۴۴۱حاشیہ)… مخرج معلوم کی راہ سے جو پلیدی اور ناپاکی کی مبرز ہے، تولد پاکر مدت تک بھوک اور پیاس اور بیماری کا دکھ اٹھاتا رہا۔‘‘