صحیح بخاری سے متعلق حضرت شاہ صاحبؒ کے افادات کا مجموعہ تیار ہوا۔ اس کا نام مولانا محمد چراغ صاحبؒ نے ’’السیح الجاری الی جنتہ البخاری‘‘‘تجویز کیا۔ (یہ کتاب انتہائی باریک قلم سے لکھی ہوئی ہے اور ایک سو پچیس صفحات پر مشتمل ہے۔ آج کل حضرت شاہ صاحبؒ کے داماد مولانااحمد رضا صاحب بجنوری (انڈیا) کے پاس غیر مطبوعہ شکل میں موجود ہے۔
اس کتاب میں وہ سب کچھ آگیا جو حضرت شاہ صاحبؒ نے دوران سبق بیان فرمایا یعنی مسائل وتشریحات کے علاوہ ضمناً جو قصص اور حکایات بیان فرمائیں۔ وہ بھی درج ہیں۔
دورۂ حدیث کا سال ختم ہورہاتھا۔ امتحان بالکل قریب تھا کہ انہی دنوں عراق کے شیخ عبدالعزیز موصلی نے مولانا محمد چراغ سے درخواست کی کہ آپ نے جو تقریر بخاری قلمبند کی ہے۔ اس کی ایک کاپی(نقل) مجھے بھی کردیں۔ اگرچہ وہ امتحان کی تیاری کے دن تھے۔ تاہم مولانا محمد چراغ صاحبؒ نے فرمایا کہ میں نے سوچا دیار غیر کا ایک مسافر ہے۔ طالب دین ہے اس کی درخواست کو رد نہیں کرنا چاہئے۔ اسے تقریر بخاری کی ایک نقل کردی۔
العرف الشذی شرح ترمذی
دارالعلوم دیوبند سے سندفراغت پانے کے بعد حضرت مولانا محمد چراغ صاحبؒ واپس اپنے گاؤں تشریف لے آئے۔ ابھی مشکل ایک ماہ گزرا ہوگا کہ ادھر رمضان المبارک میںشیخ موصلی کی ملاقات حضرت شاہ صاحبؒ سے ہوئی۔ ان کے ہاتھ میں چند اوراق دیکھ کر حضرت شاہ صاحبؒ نے استفسار کیا کہ یہ کیسے اوراق ہیں؟ شیخ موصلی نے جواب دیا کہ یہ آپ کی تقریر بخاری جو شیخ سراج فنجابی(چراغ پنجابی) نے نوٹ کی ہے۔ اس کی نقل ہے۔ (حضرت شاہ صاحبؒ پیار سے مولانا محمد چراغ صاحب ؒ کو چراغ پنجابی کے نام سے پکارتے تھے) حضرت شاہ صاحبؒ نے اس تحریر کو دیکھ کر فرمایا:’’اچھا!میں نہیں سمجھتاتھا کہ اس زمانے میں بھی کچھ لوگ ایسے ذی سواد(صاحب استعداد) ہوتے ہیں۔‘‘
یہ الفاظ آپ کی پسندیدگی اوربہترین تائید کااظہارتھے۔ اس تحریر کو دیکھنے کے بعد حضرت شاہ صاحبؒ نے مولانا محمد مظفر صاحب جہلمی( مولانا محمد چراغ صاحبؒ کے دوست) جو اس وقت دیوبند ہی میں رہائش پذیرتھے، کو فرمایا کہ محمد چراغ کو خط لکھو کہ میری تقریر ترمذی نوٹ کرے۔چنانچہ رمضان المبارک کے بعد آپ نئے تعلیمی سال کے آغاز ہی میں دیوبند حضرت شاہ صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور تقریر ترمذی کو ضبط تحریر میں لانا شروع کردیا۔ اسی دوران ساتھ ہی شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ سے عربی ادب کی تکمیل کی۔