بھی اماتۃ کا معنی مرزا کے نزدیک نیند کا بھی آتا ہے تو ابن عباسؓ بھی اماتت سے مراد نیند ہی لیتے ہوںگے۔ کیونکہ بعض علماء کا یہ بھی خیال ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر نیند وارد کرکے ان کو آسمان کی طرف اٹھایاگیا۔مرزا کااقرار کہ اماتت بمعنے نیند آتا ہے۔(ازالہ اوہام ص۹۴۳، خزائن ج۳ ص۶۲۰،۶۲۱)میں موجود ہے۔
مرزا نے یہ بھی کہا ہے کہ قرآن مجید کے وہی معانی معتبر ہوں گے جس کی شہادت دوسرے قرآنی مقامات دیتے ہوں او ر جس کی تائید احادیث صحیحہ مرفوعہ سے بھی ہو۔ (دیکھو آریہ دھرم ص۵۸، خزائن ج۷ ص۸۰ ملخص) مگریاد رہے کہ کسی قرآنی آیت کے معنی ہمارے نزدیک وہی معتبر اورصحیح ہیں جن پر قرآن کے دوسرے مقامات بھی شہادت دیتے ہوں۔ کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں… یہ بھی شرط ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل بھی اس کی مفسر ہو۔
اب ہم کہتے ہیں کہ جب کہ قرآنی آیات سے اور تواتر احادیث سے حیات مسیح علیہ السلام ثابت ہو تو پھر ’’توفی‘‘ کے لفظ پربے جا مرزا کا زور دینا بالکل غلط ہو گا۔رہی آیات تو کئی آیات حیات مسیح علیہ السلام میں پیش کی جاتی ہیں۔ مثلاً ’’وانہ لعلم للساعۃ وآیۃ وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ الآیۃ‘‘وغیرہ اور احادیث کو اگر دیکھنا ہو تو التصریح بما تواتر فی نزول المسیح مولفہ مولوی محمد شفیعؒ کو دیکھ لو اور اس میں جواوصاف آنے والے عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے بیان کئے گئے ہیں۔ قریباً ایک سو ہوں گے۔ ان سب کے نصوص و ظواہر کو ترک کر کے مرزا کے مجازات و استعارات و کنایات پر چلنا کہاں تک ممکن ہو گا۔ حالانکہ خود مرزا تسلیم کرتا ہے کہ نصوص کو اپنے ظاہر پر رہنے دینا چاہئے۔ دیکھو (ازالہ اوہام ص۵۴۰، خزائن ج۳ص۳۹۰)کیونکہ یہ مسلم ہے کہ ’’النصوص یحمل علی ظواہرہا، الخ‘‘
قد خلت من قبلہ الرسل کی آیت
مرزا اور مرزائی لوگ بہت زور سے یہ پیش کیا کرتے ہیں کہ آیت ’’قد خلت من قبلہ الرسل‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ سے پہلے سب انبیاء فوت ہو چکے ہیں اور اس آیت میں الف لام استغراق کے لئے ہے اور لفظ خلت موت پر دلالت کرتا ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ اس آیت کا معنی جو مرزا نے جنگ مقدس میں کیا ہے۔ اس سے تو وفات انبیاء کا کوئی اشارہ بھی معلوم نہیں ہوتا۔ دیکھو (جنگ مقدس ص۷، خزائن ج۶ ص۸۹)’’قد خلت من قبلہ الرسل…‘‘اس سے پہلے بھی رسول ہی آتے رہے ہیں۔ رہا یہ مسئلہ کہ اس میں الرسل پر جو الف لام ہے، وہ استغراق کے لئے ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو دلیل پیش کرو کہ استغراق