سے ایک پیش گوئی ہے۔ جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ جس زمانہ تک یہ پیش گوئی بیان نہیں کی گئی تھی، اس زمانہ تک اسلام کچھ ناقص نہیں تھا اور جب بیان کی گئی تو اس سے اسلام کچھ کامل نہیں ہو گیا۔‘‘
نیز ملاحظہ فرمائیے (اخبار بدر ۲۰؍دسمبر ۱۹۰۶ ص۷کالم۱)’’حیات و وفات مسیح کا مسئلہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو اسلام میں داخل ہونے کے لئے شرط ہو۔ جبکہ یہ مسئلہ اسلام کی جزو نہیں،الخ۔‘‘
اب مرزا یا مرزائی جماعت کا یہ کہنا اصل الاصول ہمارے نزاعات کامسئلہ حیات و نزول مسیح علیہ السلام ہے یا یہ مرزا کے صدق و کذب کی اصل مدار ہے۔ جیسے مرزا بھی کہتا ہے۔(انجام آتھم ص۱۳۳، خزائن ج۱۱ ص ایضاً، آئینہ کمالات اسلام ص۲۷۵، ضمیمہ حصہ پنجم ص۲۰۰، خزائن ج۲۱ص۳۷۲) بالکل غلط ہوا۔ کیونکہ مرزا کا دعویٰ تو مسیح موعود ہونے کا موجود ہوتے ہوئے پھر مرزا کہہ رہا ہے کہ اس مسئلہ کو اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ تو پھر مدار دعویٰ مسیحیت حیات و نزول پر کیوں ہوئی؟ مرزا کا دعویٰ مسیحیت (ازالہ اوہام ص۷۲۱، خزائن ج۴۸۸)وغیرہ میں مصرح موجود ہے۔
پس ثابت ہوا کہ مسیح موعود ہونے کی مدار حیات و نزول و وفات مسیح علیہ السلام پر نہیں۔ نزول مسیح علیہ السلام و صعود و حیات مسیح علیہ السلام آپس میں متلازم ہیں۔ جیسے مرزا نے (حمامۃ البشریٰ ص۳۲، خزائن ج۷ص۲۱۶) میں کہا:’’وما عرفواان النزول فرع الصعود‘‘اور (ازالہ اوہام ص۴۷۰، خزائن ج۳ ص۳۵۱)میںکہا کہ ’’واضح رہے کہ آنحضرتﷺ کی قبر میں ان کا آخری زمانہ میں دفن ہونا یہ اس بات کی فرع ہے کہ پہلے ان کا اس جسم خاکی کے ساتھ زندہ اٹھایا جانا ثابت ہو،الخ۔ پس اب ثابت ہوا کہ نزول و صعودہ حیات مسیح علیہ السلام سب متلازم ہیں۔ ایک کے ثبوت سے دوسرے کا ثبوت خود ہو جائے گا۔
لفظ ’’توفی‘‘ پر مرزا کے اصول سے نظر
مرزااور مرزائی یہ کہا کرتے ہیں کہ ’’توفی‘‘ کا فاعل جب اﷲ تعالیٰ ہو اور مفعول بہ ذی روح ہو تو اس کا معنی سو اموات دینے اور قبض روح کے اور کچھ نہیں۔(ازالہ ص۹۱۸، ۲۴۶، خزائن ج۳ ص۶۰۳،۲۲۴، وغیرہ و تحفہ گولڑویہ ص۴۵، خزائن ج۱۷ص۱۶۲)لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا باوجود ملہم ہو چکنے کے براہین احمدیہ میں متوفی کا موت دینے کا معنی نہیں کرتا۔ (دیکھو براہین احمدیہ ص۵۲۰، خزائن ج۱