محاورہ بھی یہی ہے۔ بلکہ قرآن مجید بھی یہی ارشاد فرماتاہے۔ جہاں کہیں قرآن مجید نے ختم کرنا اور مہر لگانا ذکر کیاہے۔ وہاں بند کرنا ہی مراد لیا ہے۔
۱… ’’ختم اﷲ علی قلوبھم وعلی سمعھم‘‘{خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے۔‘‘یعنی بند کردیئے ہیں اور وہ حق کو سننے یا سمجھنے کے قابل نہیں رہ گئے۔}
۲… ’’ختامہ مسک‘‘{اس پر مہر اور بندش کستوری کی ہوگی۔}
۳… ’’الیوم نختم علی افواہھم وتکلمنا ایدیھم‘‘{قیامت کے دن ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے۔ یعنی ان کے منہ بند کردیںگے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے۔}
الاحادیث النبویہ
آنحضرتﷺنے ختم نبوت کے مسئلہ کو ہر ایک طریق اور پہلو سے واضح فرما دیا ہے اور اس میں کسی آنے والے مفتری کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ اس مضمون کی احادیث بکثرت موجود ہیں۔ لیکن میں اس وقت چندہ وہ احادیث پیش کرنا چاہتاہوں۔ جس کو مرزا غلام احمد قادیانی نے خود اپنی تصانیف میں تسلیم کیاہے۔
حدیث اوّل
آنحضرتﷺ نے فرمایا:’’لانبی بعدی(بخاری ومسلم)‘‘یعنی آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ خواہ بروزی ہو یا ظلی یا عکسی یا تشریعی یا غیر تشریعی یا بالواسطہ یا بلاواسطہ یا متبع یاغیر متبع کوئی کسی قسم کا نبی نہ ہوگا۔ اس حدیث کو مرزا قادیانی نے اپنی مختلف تصانیف میں تسلیم کیا ہے اور اس کو حدیث مشہور بھی مانتا ہے اور پھر اس میں نفی عام مستغرق تسلیم کرتا ہے۔ کسی قسم کے نبی کو اس میں سے مستثنیٰ نہیں کرتا۔ بلکہ ہر ایک قسم کی نبوت کو آنحضرتﷺ پر ختم سمجھتاہے اور وہ خود اس حدیث لانبی بعدی کو آیت خاتم النّبیین کی تفسیر کہتاہے۔ ملاحظہ ہو۔ مرزا کے اقوال:
۱… (کتاب البریہ ص۱۸۴ حاشیہ، خزائن ج۱۳ص۲۱۷)میںمرزاقادیانی نے لکھاہے:حدیث ’’لا نبی بعدی‘‘ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا۔‘‘
۲… (ایام الصلح اردو ص۱۴۶، خزائن ج۱۴ص۳۹۳)’’قرآن شریف میں…ختم نبوت کا بکمال تصریح ذکر ہے اور پرانے یا نئے نبی کی تفریق کرنا یہ شرارت ہے۔ نہ حدیث میں نہ قرآن میں یہ تفریق موجود ہے اورحدیث ’’لانبی بعدی‘‘میں بھی نفی عام ہے۔ پس یہ کس قدر جرأت اور دلیری اور گستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کرکے نصوص صریحہ قرآن کو عمداً چھوڑ دیا جائے اور