۷… تکمیل دین کے لئے ایک عظیم نبی کی آمد۔مثلاً حضرت محمدﷺ۔
چیلنج
آج دنیا میں کئی مذاہب جاری ہیں۔ لیکن کسی قوم کے پاس (خواہ وہ نئی ہو یا پرانی) آسمانی صحیفہ اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں۔ ہاں صرف مسلمان ایک ایسی قوم ہے جس کے پاس وحی الٰہی کتابی صورت میں بغیر کسی ترمیم و تنسیخ کے اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جو معیار حق ہے اور جس کے اصول پر وہ اپنے اعمال کو پرکھ سکتے ہیں۔
لہٰذا جب تک یہ کتاب اﷲ دنیا میں موجود ہے۔ نہ نزول وحی کاامکان ہے اور نہ نبی آنے کی ضرورت ہے۔ جب قرآن دنیا سے مٹ جائے گا تو لازماً وحی کے لئے نئے نبی کی ضرورت ہوگی۔
فریضہ رسالت
چونکہ نبوت حضرت محمدﷺ پر ختم ہوگئی۔(۳۳:۴۰) اورجس قدر وحی کی ضرور ت تھی۔ وہ قرآن میں محفوظ کر دی گئی ہے۔ اب کوئی انسان خدا کی طرف سے وحی نہیں پا سکتا۔ لیکن فریضہ رسالت (تبلیغ اور اقامت دین) امت کے سپرد ہے۔ جو کتاب اﷲ کی وارث ہے۔(۷:۱۶۹)
اب اس وحی کو عملی طور پر متشکل کرکے امامت دین کرنا اور دین حق کے اصولوں کی غیر علاقوں میں تبلیغ کرنا امت محمدیہؐ کا فریضہ ہے۔ جو اپنے ملی مرکز کے اجتماعی نظام کے ذریعے اس فرض کی ادائیگی کے لئے رسول اﷲ کی جانشین ہے لہٰذا قرآنی احکام اورقوانین کااتباع کرتے ہوئے امت محمدیہؐ جب بھی چاہے خلافت علیٰ منہاج رسالت قائم کرکے قیامت تک اس فریضہ کو اﷲ کی خوشنودی کے لئے ادا کر سکتی ہے۔
ارشادات نبویؐ
وحی کی روشنی میں ختم نبوت کے متعلق حضور اکرمﷺ کے ارشادات گرامی یہ ہیں۔
۱… ’’انا خاتم النّبیین لانبی بعدی‘‘
۲… سلسلہ وحی کے انقطاع کے متعلق فرمایا:’’ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی (ترمذی)‘‘ کہ بیشک رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے۔ پس