۵… بی بی مریم علیہا السلام نے یہ سب کچھ سن کر دریافت کیا کہ اے میرے رب کیونکر ہوگا واسطے میرے بیٹا کہ مجھے کسی آدمی نے ہاتھ نہیں لگایا۔
۶… جواب ملا کہ اﷲ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ جب اﷲ مقرر کرتا ہے کچھ کام، پس سوائے اس کے نہیںکہ کہتا ہے ہو،پس ہوجاتاہے۔
’’اذتستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملئکۃ مرد فین‘‘{جب لگے تم فریاد کرنے اپنے رب سے پس پہنچا تمہاری پکار کو کہ میں مدد بھیجوں گا تمہاری ہزار فرشتے جن کے پیچھے لگے آویں۔ }
’’اذیوحی ربک الی الملئکۃ انی معکم فثبتوا الذین امنو سالقی فی قلوب الذین کفرو الرعب فاضربوا فوق العناق واضربوامنھم کل بنان، ذلک بانھم شاقوا اﷲ ورسولہ ومن یشاقق اﷲ ورسولہ فان اﷲ شدید العقاب‘‘
{جب حکم بھیجا تیرے رب نے طرف فرشتوں کی کہ میں ساتھ ہوں تمہارے سو تم ثابت کرو دل مسلمانوں کے میں ڈال دوں گا دل میں کافروں کے دہشت سو مارو اوپر گردنوں کے اور مارو ان کے ہر پور پور پر اس واسطے کہ وہ مخالف ہوئے اﷲ کے اوررسول اس کے اور جو کوئی مخالف ہوا اﷲ کا اور رسول اس کے کا پس تحقیق اﷲ سخت عذاب کرنے والاہے۔}
مرزا غلام احمد فرشتوں کے نزول سے انکاری ہیں۔ حصہ دوم
دیکھو(توضیح المرام ص۲۹، خزائن ج۳ص۶۶)میں مرزا قادیانی لکھتے ہیں:’’ اہل اسلام ہرگز اس بات کے قائل نہیں کہ ملائکہ اپنے شخصی وجود کے ساتھ انسانوں کی طرح پیروں سے چل کر زمین پر اترتے ہیں اور یہ خیال بالبداہت باطل ہے۔‘‘
ف… اس عبارت میں دو سفید جھوٹ ہیں۔
۱… اہل اسلام کو نا حق مرزا قادیانی اپنے ساتھ گمراہی میں شامل کرتے ہیں۔
۲… کہ ملائکہ شخصی وجود سے زمین پر نہیں چلتے۔
اہل انصاف پر ہرگز پوشیدہ نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جو مہمان آئے تھے۔ وہ فرشتے ہی تھے۔ آدمیوں کی شکل میں تھے۔ جن کے کھانے کے واسطے حضرت ابراہیم علیہ السلام گائے کے بچہ کا گوشت بھون کر لائے تھے۔ مگر انہوں نے نہ کھایا۔ کیونکہ فرشتوںکو کھانے کی حاجت نہیں ہوتی۔ خدا کی بندگی ہی ان کی غذا ہے اور نیز بی بی مریم کے پاس