یوں ارشاد فرمائیں:’’الم نشرح لک صدرک‘‘اس کی نسبت تو یہ خیال اوراپنی تعریف یہ کہ جو معنی قرآن کریم کے میں کروں گا وہی معنی صحیح ہوںگے۔ دیکھو (الحکم نمبر۴۱ج۴ص۲ مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۰ئ) اور نیز اسی کتاب کے تیسرے باب میں تمام عبارت درج ہوچکی ہے۔ وہاں سے طالب حق دیکھ کر انصاف کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔ ضد اورتعصب کی مرض تو لاعلاج ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے تمام مسلمانوں کو کج فہمی سے اور ایسے شخص کے شر سے بچائے۔ آمین ثم آمین۔
پانچواں باب پیغمبرﷺ کے جسمانی معراج کے ثبوت میں۔ حصہ اوّل
قولہ تعالیٰ ’’سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الا اقصی الذی بٰرکنا حولہ لنریہ من ایتنا انہ ھو السمیع البصیر‘‘{پاک ہے وہ ذات کہ لے گیا بندے اپنے کو ایک رات مسجد حرام سے طرف مسجد اقصیٰ کے، جو برکت دی ہم نے گرد اس کے کو توکہ دکھاویں نشانی اپنی ۔ تحقیق وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔}
ف… ان آیات سے ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک رات میںپیغمبر ﷺ کو مکہ سے مسجد اقصیٰ تک کا سیر کرایا۔ یعنی پیغمبر خدا ﷺ ایک ہی رات میں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک گئے اور حالت بیداری میں گئے اور اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں کو آنکھ سے دیکھا اور اسریٰ بعبدہ سے یہی صاف معلوم ہوتا ہے کہ جسم کے ساتھ دیکھا اور نیز عبد کا لفظ جسم اورروح دونوں پردلالت کرتا ہے اور اگر یہ دیکھنا خواب کی حالت میں ہوتا تو اﷲ تعالیٰ یہ ہرگز نہ فرماتے ’’سبحن الذی اسریٰ بعبدہ‘‘ اور نیز کفار مکہ کو بھی اس کے سننے سے انکار ہرگز نہ ہوتا۔ کیونکہ خواب کی حالت میں تو اکثر مومن اور کافر ہمیشہ قسم قسم کے عجائبات دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ چنانچہ حدیثوں میں یہ لکھا ہے کہ کفار مکہ نے مسجد اقصیٰ کے نشان اورپتے آنحضرت ﷺ سے طلب کئے تو پیغمبر خدا ﷺ نے ان کو پورے طورپر نشان بھی بتا دیئے۔
قولہ تعالیٰ ’’ولقد راہ نزلۃ اخریٰ عند سدرۃ المنتہیٰ عندھا جنۃ الماویٰ، اذ یغشیٰ السدرۃ مایغشیٰ مازاغ البصر وما طغٰی لقد رایٰ من ایت ربہ الکبریٰ‘‘
{اورالبتہ تحقیق دیکھا اس نے اس کو ایک بار اور نزدیک سدرۃ المنتہیٰ کے، نزدیک اس کے ہے جنت الماویٰ جس وقت کہ ڈھانک رہاتھا بیر کو جو کچھ ڈھانک رہاتھا نہیں کجی کی نظر نے اور نہ زیادہ بڑھ گئی البتہ تحقیق دیکھا اس نے نشانیوں پر وردگار اپنے کی سے بڑی کو۔}