’’خدا کا نام لے کر جھوٹ بولناسخت بد ذاتی ہے۔‘‘
(تریاق القلوب ص۶، خزائن ج۱۵ ص۱۴۰)
۱… (ایام الصلح ص۱۴۷، خزائن ج۱۴ص۳۹۴)’’سومیں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے۔ کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے۔‘‘ یہ بالکل غلط ہے۔ مرزا کے کئی استاذ ہوئے ہیں۔ مولوی فضل احمد،مولوی فضل الٰہی، مرزا غلام مرتضیٰ، گل علی شاہ وغیرہ۔ خود معراج دین عمر نے مرزا کی سوانح عمری (ص۶۳)میں اس کے کئی ایک استاد قرآن مجید وغیرہ کے لکھے ہیں اور مرزا بشیر الدین خلیفہ ثانی نے بھی مرزا کی سوانح عمری (ص۱۰،۱۱) میںیونہی لکھا ہے کہ اس نے فلاں فلاں سے پڑھا ہے۔ خود مرزا کے قلم سے ہے۔ (ریویو آف ریلیجز ج۶ص۲۲۰ ماخوذ از کتاب البریہ)
۲،۳… ’’واﷲ قد کنت اعلم من ایام مدیدۃ اننی جعلت المسیح ابن مریم وانی نازل فی منزلہ ولکنی واخفیتۃ…وتوقفت فی الاظہار عشرسنین‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۵۱،خزائن ج۵ص ایضاً) اس میں دو جھوٹ قسمیہ ثابت ہوتے ہیں۔
۱… تو یہ کہ میں جانتا تھا کہ میں مسیح بن مریم ہوں۔ حالانکہ (ضمیمہ نزول مسیح ص۷،خزائن ج۱۹ص۱۱۳)میں خود لکھتا ہے کہ:’’ مجھے اس امر کی کوئی خبر نہ تھی کہ میں ہی مسیح موعود ہوں۔‘‘
۲… یہ کہ یہاں کہتا ہے کہ ’’دس سال تک میں نے بعد از الہام اپنے دعویٰ کو ظاہر نہ کیا اور (ضمیمہ نزول مسیح ص۷،خزائن ج۱۹ص۱۱۳) میں بارہ سال لکھتا ہے۔ یہ دو جھوٹ ہوئے۔
مسئلہ حیات مسیح علیہ السلام
مسئلہ نزول و صعود و حیات مسیح علیہ السلام کی پوزیشن مرزا کی نظر میں
عموماً مرزائی جماعت سب سے اول مسئلہ حیات مسیح علیہ السلام لے آنا چاہتی ہے۔ لیکن دیکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ مرزا کی نظر میں کوئی اصولی مسئلہ نہیں۔ دیکھو
(ازالہ اوہام ص۱۴۰، خزائن ج۳ص۱۷۱)
’’اوّل تو یہ جاننا چاہئے کہ مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہماری ایمانیات کی کوئی جزو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو۔ بلکہ صدہا پیش گوئیوں میں