’’واذ قال ربک للملئکۃ انی خالق بشرا من صلصال من حما مسنون، فاذا سویتہ ونفخت فیہ من روحی فقعوالہ، سٰجدین، فسجد الملئکۃکلھم اجمعون الا ابلیس ابیٰ ان یکون مع السٰجدین‘‘{اور جس وقت کہا رب تیرے نے واسطے فرشتوں کے تحقیق میں پیدا کرنے والا ہوں آدمی کو بجنے والی مٹی سے جو بنی تھی کیچڑ سڑی ہوئی سے۔ پس جب درست کروں میں اس کو اور پھونک دوں میں بیچ اس کے روح اپنی سے پس گر پڑو واسطے اس کے سجدہ کرتے ہوئے پس سجدہ کیا فرشتوں نے سب نے اکٹھے مگر ابلیس نے نہ مانا یہ کہ ہو ساتھ سجدہ کرنے والوں کے ۔}
ف… ان ہر دوآیات سے چند امور صاف ظاہر ہیں۔
۱… تمام فرشتوں نے اﷲ کے حکم سے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا۔
۲… اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں کویہ خبر بطور حکم کی تھی کہ تحقیق میں پیدا کرنے والا ہوں آدمی کو بجنے والی مٹی سے جونبی تھی کیچڑ سڑی ہوئی سے۔ پس جب درست کروں میں اس کو اور پھونک دوں میں بیچ اس کے روح اپنے سے پس گر پڑو واسطے اس کے سجدہ کرتے ہوئے۔ پس سجدہ کیا فرشتوں نے سب نے اکٹھے۔ مگر ابلیس نے نہ مانا یہ کہ ہو ساتھ سجدہ کرنے والوں کے۔
اب مرزا قادیانی کا اعتقاد کہ فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا
حصہ دوم
(توضیح المرام ص۴۹، خزائن ج۳ص۷۶)میں مرزا قادیانی تحریر کرتے ہیں:’’یہ سجدہ کا حکم اس وقت سے متعلق نہیں ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے۔ بلکہ یہ علیحدہ ملائک کو حکم کیاگیا کہ جب کوئی انسان اپنی حقیقی انسانیت کے مرتبہ تک پہنچے اور اعتدال انسانی اس کو حاصل ہو جائے اور خدا تعالیٰ کی روح اس میں سکونت اختیار کرے۔ تو اس کامل کے آگے سجدہ میں گرا کرو۔ یعنی آسمانی انوار کے ساتھ اس پر اترو اور اس پر صلوٰۃ بھیجو۔‘‘
ف… اہل انصاف مرزا قادیانی کی اس عبارت کی طرف ایماناً غور کریں کہ (یہ سجدہ کا حکم اس وقت سے متعلق نہیں ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے)یہ نص صریح کے صاف خلاف ہے۔ دیکھو ’’فاذا سویتہ و نفخت فیہ من روحی فقعوالہ سٰجدین فسجد الملئکۃ کلہم اجمعون الا ابلیس‘‘کے ترجمہ کو حصہ اول میں یا کسی مترجم قرآن شریف سے۔