۱… ’’ایک یہ کہ انہوں نے کامل عمر پائی،یعنی ایک سو پچیس برس زندہ رہے۔‘‘ (۱۹۰۸ئ)
(حضور گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست ملحقہ تریاق القلوب ص ش، خزائن ج۱۵ ص۴۹۹)میںبھی ایک سو پچیس برس ہی لکھی ہے۔ (۱۹۰۲ئ)
(ایک عیسائی کے تین سوالوںکا جواب ص۴۲، خزائن ج۴ ص۴۷۴)’’سچ یہی ہے کہ مسیح بغیر اپنی مرضی ناگہانی طور پرپکڑا گیا…اس سے بوضاحت ثابت ہوتا ہے کہ مسیح زندہ رہنا اور کچھ اور دن دنیا میں قیام کرنا چاہتا تھا اور اس کی روح نہایت بے قراری سے تڑپ رہی تھی کہ کسی طرح اس کی جان بچ جائے۔ لیکن بلامرضی اس کے یہ سفر اس کو پیش آگیا۔‘‘ یہ واقعہ صلیبی ہے۔ جس وقت حضرت مسیح کی عمر۳۳ برس تھی۔ جیسے (تحفہ گولڑویہ س۱۲۷، خزائن ج۱۷ص۳۱۱)میں ہے۔
(اتمام الحجہ ص۱۷، خزائن ج۸ص۲۹۴)’’اور امام مالکؒ نے کہا ہے کہ عیسیٰ مر گیا اور وہ تینتیس برس کا تھا جب فوت ہوا۔ اب دیکھو امام مالکؒ کس شان اورمرتبہ کے امام اور خیر القرون کے زمانے کا اور کروڑہا آدمی اس کے پیرو ہیں۔ جب ان کا یہی مذہب ہوا تو گویا یہ کہنا چاہئے کہ کروڑہا عالم او ر متقی اور اہل ولایت جو سچے پیرو حضرت امام صاحبؒ کے تھے۔ان کا یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں۔‘‘
(تحفہ الندوہ ص۱۰، خزائن ج۱۹ص۱۰۳،۱۰۴)’’سب کے بعد جو آج ہمیں خبر ملی یہ تو ایک ایسی خبر ہے کہ آج اس نے مسلمانوں کے لئے عید کا دن چڑھا دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حال میں بمقام یوروشلم پطرس حواری کا دستخطی ایک کاغذ پرانی عبرانی میں لکھا ہوا دستیاب ہوا۔ جس کوکتاب کشتی نوح کے ساتھ شامل کیاگیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح صلیب کے واقعہ سے تخمیناً پچاس برس بعد اسی زمین پر فوت ہو گئے تھے… یہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ وہ پطرس کی تحریر ہے… اور واقعہ صلیب کے وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر تقریباً۳۳ سال …تھی…اور اس خط کے متعلق اکابر علماء مذہب عیسوی نے بہت تحقیقات کر کے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ صحیح ہے…اور ہمارے نزدیک اس کاغذ کی صحت پر اور قوی دلیل ہے۔‘‘
(اخبار الحکم نمبر۳۵ج۹ص۵کالم۳،۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۵ئ)’’اور اس پر سوال کرتے ہیں کہ جبکہ وہ ۸۷ سال تک زندہ رہے تو ان کی قوم نے ترقی کیوں نہ کی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اسی کا جواب دینا ہمارے ذمہ نہیں۔‘‘(۱۹۰۵ئ)
حیات مسیح علیہ السلام میں مرزا کا خبط عشواء
۱… (براہین احمدیہ ص۵۰۵، خزائن ج۱ ص۶۰۱)میںاہل اسلام کے عقیدہ کے موافق مرزا