ایک مشہور شبہ اور اس کا ازالہ
مرزا قادیانی اور اس کی امت اپنے زعم میں اہل اسلام پر ایک بہت بڑا شبہ پیش کیا کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ اگر تمہارے خیال کے موافق حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آویں تو آنحضرتﷺ خاتم النّبیین نہیں رہ سکتے اور مرزا قادیانی کہتا ہے کہ یہ اعتراض مجھ پر بھی وار دہوتا ہے۔ لیکن اے مسلمانو! تم بھی اس اعتراض سے بچ نہیں سکتے۔
(ایک غلطی کاازالہ ضمیمہ حقیقت النبوۃ ص۲۶۵)پھراسی صفحہ پر ایک غلطی کا ازالہ میں دعوی کرتا ہے کہ میں کیونکہ آنحضرتﷺ کا بروز ہوں۔ گویا وہی ہوں۔ اس لئے میرے آنے سے ختم نبوت کی مہر نہیں ٹوٹتی۔ لیکن حضرت مسیح کے آنے سے ختمیت کی مہر ٹوٹ جائے گی۔ میں چاہتاہوں کہ آخر میں ان کے اس شبہ واہیہ کا بھی ازالہ کردوں۔
الجواب… پہلے میں یہ عرض کر دوں کہ ہمارے ہاں خاتم النّبیین کامعنی کیا ہے۔ اس کی وضاحت کے بعد کوئی شبہ باقی نہ رہے گا۔ ہم خاتم النّبیین کا معنی یہ کرتے ہیں کہ نبوت کو ختم کرنے والا یعنی انبیاء کا شماراب بند ہوگیا ہے اور کوئی ایسا نبی نہ ہوگا جس کے آنے سے انبیاء کی تعداد میں اضافہ ہو۔ آپﷺ آخری نبی ہیں۔ یعنی انبیاء کرام کا شمار زیادہ زیادہ ہوتاگیا۔ حتیٰ کہ آخری نمبر زمانہ کے لحاظ سے آنحضرتﷺ کا نمبرٹھہرا۔ فرض کرو کہ آنحضرتﷺ سے پہلے ایک لاکھ ایک کم چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام ہو چکے تھے تو آپﷺ کے آنے سے پورے ایک لاکھ چوبیس ہزار کی گنتی پوری ہو گئی۔ اب آپﷺ نے آکر انبیاء علیہم السلام کے تعداد و شمار کو بند کر دیا۔ اگرچہ آنحضرتﷺ کی نبوت سب سے اول تھی۔ لیکن زمانہ کے لحاظ سے ظہور آپﷺ کا سب سے اخیر میں ہوا۔ اب کسی شخص کو آنحضرتﷺ کے بعد انبیاء سابقین کے علاوہ اگر منصب نبوت پر فائز کیاجائے۔ تو پھر اس کے آنے سے یقینا انبیاء علیہم السلام کے شمارمیں اضافہ ہوگا۔ مثلاً پھر ایک لاکھ چوبیس ہزار اور ایک نبی ہو جائیں گے اور پہلے انبیاء کی جو گنتی بند ہو چکی تھی وہ بند نہ ہوگی اور اس تعداد پر زیادتی ہو جائے گی اور یہ ختم نبوت کے منافی ہوگا۔
اب اس معنی کے بعد میں عرض کروں گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام اگرآنحضرتﷺ کے بعد دوبارہ تشریف فرماہوں تو اس سے ختم نبوت اور خاتم النّبیین کے مفہوم میں کوئی کسی قسم کا خلل واقع نہ ہوگا۔ کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کا شمار تو پہلے ہو چکا ہے۔ اب وہ دوبارہ نہیں۔ اگر بالفرض سہ بارہ بھی آجائیں یا چالیس سال نہیں بلکہ اس سے زیادہ سال بھی ان پر وحی ہوتی رہے۔