۴… انسانیت کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے کے لئے نبوت تو خود ابھر کر انسانوں کے سامنے آتی ہے اور ان کی غلط روشن زندگی کے خلاف اعلان حق کرتی ہے۔ لیکن ایک قائم نبوت کے تحت بروزی نبوت کاتصور ہی باطل ہے۔ کیونکہ یہ تو قائم نبوت کی نفی کرتی ہے لہٰذا ظلی یا بروزی نبوت کی اصطلاح حال کے کسی خود غرض اور گمراہ انسان کی ایجاد تو ہوسکتی ہے۔ لیکن حضرت نوح سے لے کر حضرت محمدﷺ کے بھی ۱۳۰۰ سال بعد تک اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
ختم نبوت
(سورہ احزاب:۳۳،۴۰)میں حق تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمدﷺ پر ختم نبوت کا اعلان کیا۔:’’ماکان محمد ابااحد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین (الاحزاب:۴۰)‘‘ کیونکہ اس دور میں دین الٰہی بذریعہ قرآن مکمل ہو چکا تھا۔ ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (المائدہ:۳)‘‘تکمیل ہمیشہ نامکمل شے کی ہوتی ہے اورتکمیل کے بعد ترقی رک جاتی ہے۔
۲… ’’وھوالذی انزل علیکم الکتاب مفصلا وتمت کلمت ربک صدقا وعدلا، لا مبدل لکلماتہ وھوالسمیع العلیم (الانعام:۱۱۴،۱۱۵)‘‘ یعنی اﷲ وہی عظیم الشان ذات ہے۔ جس نے تمہاری طرف ایک مفصل کتاب نازل فرمائی ہے اوراس میں اﷲ کا کلام(نوع انسانی کے لئے ضابطہ حیات) صدق وعدل کے ساتھ پورا ہو چکا ہے۔ اس کے احکام کو اب کوئی بدل نہیں سکتا۔ کیونکہ یہ انسانی ضروریات کے لئے ہر دور کے عین مطابق ہیں اور ان کا نازل کرنے والا اﷲ ہر بات کو سننے والا اور ہر چیز کاجاننے والا ہے۔
۳… پہلے صحیفے اور کتب پیشوایان مذاہب کی خود غرضیوں اوسانانیت کی وجہ سے گم یا خورد برد ہوگئے۔ یا ان میں تحریف یا ترمیم و تنسیخ ہوگئی اور انسانیت معیار حق سے محروم ہوگئی۔ اس لئے قرآن کو جمع کرنے۔ اس کو پڑھنے (۷۵:۱۷)اوراس کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری خود خدا نے لے رکھی ہے۔’’انا نحن نزلناالذکر وانا لہ لحافظون (الحجر:۹)‘‘
ب… قرآن اس مضبوط اوربند قلعے کی مانند ہے۔ جس میں سے نہ کوئی چیز باہر نکل سکتی ہے اور نہ باہر سے اندر داخل ہوسکتی ہے۔