اس سے بھی اب ثابت ہوگیا کہ ہر جگہ استغراق حقیقی ہی مراد نہیں ہوا کرتا۔ تو ہم بھی کہتے ہیں کہ بعد فرض الاستغراق یہاں استغراق حقیقی نہیں ہے، کیونکہ دوسری آیات اور احادیث جو مسیح علیہ السلام کی آمد کی ہیں، وہ اس کو مخصص کر دیتی ہیں۔ اس کے متعلق انشاء اﷲ تعالیٰ آئندہ مستقل بحث کی جائے گی کہ ہر جگہ عموم و استغراق حقیقی ہی مراد نہیںہوا کرتا۔ اس پر قرآن و اقوال مرزا بطور استشہاد پیش کروں گا۔بفضلہ تعالیٰ انشاء اﷲ!
اجماع صحابہ بر وفات مسیح
مرزا اورمرزائی لوگ اس پر بہت زور دیا کرتے ہیں کہ حضر ت ابوبکرصدیقؓ نے جب آنحضرتﷺ کی وفات کے وقت خطبہ دیاتھا تو اس وقت اس بات پر صحابہؓ کا اجماع ہو گیا تھا کہ آنحضرتﷺ اور تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں۔ (حقیقت الوحی ص۳۳، خزائن ج۲۲ص۳۶، استفتاء ص۴۳، خزائن ج۲۲ص۶۶۵، تحفہ گولڑویہ ص۴، خزائن ج۱۷ص۹۲)
۱… اوّل تو اس میں جو آیت وہ پیش کرتے ہیں وہ’’قد خلت من قبلہ الرسل الآیۃ‘‘ ہے۔ جس سے وفات انبیاء علیہم السلام ثابت نہیں ہوتی۔ جس پرپہلے بحث ہو چکی ہے۔ نیز اگر یہ ثابت کرتی ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام فوت ہوچکے ہیں۔ تو پھر مرزا جو خود کو نبی ٹھہراتا ہے، وہ بھی اس آیت کے معنی سے اسی وقت جب کہ یہ آیت نازل ہوئی، فوت شدہ ماننا پڑے گا۔ ورنہ استغراق نہیں ہو گا۔
۲… ثانیاً مرزا خود تسلیم کرتا ہے کہ بعض صحابہ وفات مسیح کے قائل ہیں نہ کہ تمام صحابہ،دیکھو (ازالہ اوہام ص۴۶۹، خزائن ج۳ ص۳۵۱) اے حضرات مولوی صاحبان جبکہ عام طور پر قرآن شریف سے مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے اور ابتداء سے آج تک بعض اقوال صحابہؓ اور مفسرین بھی اس کو مارتے ہی چلے آئے ہیں۔ تو اب آپ لوگ ناحق کی ضد کیوں کرتے ہیں،الخ۔
و (ازالہ اوہام ص۷۵۶، خزائن ج۳ ص۵۰۸)انہی تفسیروں میں بعض اقوال کے مخالف بعض دوسرے اقوال بھی لکھے ہیں۔ مثلاً اگر کسی کا یہ مذہب لکھا ہے کہ مسیح بن مریم علیہما السلام جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہی اٹھایا گیا، تو ساتھ ہی اس کے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ بعض کا یہ بھی مذہب ہے کہ مسیح فوت ہو گیا ہے۔ بلکہ ثقات صحابہؓ کی روایت سے فوت ہو جانے کے قول کو ترجیح دی ہے۔ جیسے کہ ابن عباسؓ کا یہی مذہب بیان کیاگیا ہے، الخ۔
(ازالہ اوہام ص۴۵۹، خزائن ج۳ ص۳۴۵)اور یہ اعتراض کہ تیرہ سو برس کے بعد یہ بات تمہیں کو معلوم ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت یہ قول نیا تو نہیں پہلے راوی اس کے تو ابن