قبول نہیں کریں گے اور آیت ’’حتیٰ یعطواالجزیۃ عن یدوھم صاغرون‘‘کو بھی منسوخ کر دیں گے۔ یہ دین اسلام کے کیسے حامی ہوںگے کہ آتے ہی قرآن کی ان آیتوں کو بھی منسوخ کر دیں گے۔ جو آنحضرتﷺ کے وقت میں بھی منسوخ نہیںہوئیں اور اس قدر انقلاب سے بھی ختم نبوت میں حرج نہیں آئے گا۔‘‘
اس سے مرزا ثابت کرتا ہے کہ اگر حضرت مسیح اور مہدی علیہا السلام آکرجزیہ قبول نہ کریں گے اور یضع الجزیۃ کی حدیث پر عمل کریںگے تو یہ آیت منسوخ ہو جائے گی۔ گویا ترمیم و تنسیخ ہو گئی۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ مرزا نے نہ تو انگریزوں سے جہاد کیا اور نہ جزیہ وصول کیاتو اس کے عمل نے زیادہ ترمیم و تنسیخ کر دی۔ لہٰذا اس نے شریعت جدیدہ قائم کی۔اس کے علاوہ اور بہت سے مسائل ہیں جو مرزا نے نئے نکالے ہیں۔ مثلاً سود کوحلال کر دیا جس کا حکم تھا:
’’واحل اﷲ البیع وحرم الربوا‘‘یعنی اﷲ تعالیٰ نے خرید و فروخت کوحلال کیا اور سود کو حرام ٹھہرایا۔ دیکھو (سیرت المہدی ص۱۱۲،۱۱۳ج۲)
لاہوری پارٹی کے لئے
لاہوری مرزا کہا کرتے ہیں کہ مرزا قادیانی نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ اس نے اپنے منکرین کو کافر کہا ہے۔ اس لئے ان دونوں باتوں کی تردید ضروری ہوئی۔
۱… یہ کہ مرزا نے دعویٰ نبوت کیا۔
۲… یہ کہ اس نے اپنے منکرین کو کافر کہا۔
ادلہ دعویٔ نبوت
۱… مرزا نے اپنے آپ کو انبیاء سے افضل قرار دیا ہے اور کسی غیر نبی کو نبی پر فضیلت نہیں ہو سکتی۔ ہاں بزعم مرزا فضیلت جزوی ہو سکتی ہے۔ جیسے (حمامۃ البشریٰ ص۷۷،خزائن ج۷ ص۲۹۴)میں لکھا ہے:’’فکم من کمال یوجد فی الانبیاء بالاصالۃ ویحصل لنا افضل منہ و اولی بالطریق الظلی‘‘
(ص۷۸، خزائن ج۷ص۲۹۵)’’وقد اتفق علماء الاسلام انہ قد یوجد فی غیر نبی مالا یوجد فی نبی‘‘
لیکن مرزا نے اپنے لئے کلی فضیلت ثابت کی ہے۔ دیکھو(دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳)’’اس مسیح کے مقابل پر جس کا نام خدا رکھا گیا تھا۔ خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا۔ جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔‘‘