صاحبؒ، مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ، مولانا محمد یوسف بنوریؒ اور دوسرے بہت سے حضرات اس دارفانی کو پہلے ہی الوداع کہہ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے تھے کہ ۱۴؍رمضان المبارک ۱۴۰۹ھ مطابق ۲۱؍اپریل ۱۹۸۹ء کو حجۃ الاسلام مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ کے معارف و علوم کا بہت بڑاخزانہ ہزاروں انسانوں کے افادے کے بعد زیرزمین روپوش ہو گیا۔ شاہ صاحبؒ کے نور سے مستفید چراغ تاباں چار دانگ عالم میں ہزاروں چراغ روشن کرنے کے بعد گل ہوگیا۔ علم کا ایک پہاڑ زمین بوس ہوگیا۔ ایک ایسی ہستی جس پر علم کوناز تھا۔ اس جہان فانی سے کوچ کر گئی۔ سیرت انوری کے پیکر، عالم باعمل، محدث و مفسر، استاذ العلماء حضرت مولانا محمد چراغ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ رحمۃ واسعۃً کی رحلت پر عبدۃ بن الطیب کا یہ مشہور شعر پوری طرح صادق آتاہے:
فما کان قیس ھلکہ ھلک واحد
ولکنہ بنیان قوم تھدما
استاذو محبی حضرت مولانا محمد چراغ صاحبؒ ۱۴؍جمادی الآخر ۱۳۱۴ھ کو ضلع گجرات (پاکستان) کے ایک گاؤں موضع دھکڑ میں پیداہوئے۔ آپ کے والد ماجد جناب حافظ کرم دین صاحب کاشتکاری کا کام کرتے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ علمی و ادبی ذوق بھی بہت عمدہ تھا۔ مثنوی مولانا رومؒ اور دیوان حافظؒ وغیرہ کتب عموماً پاس رہتیں۔ مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ سے والہانہ عقیدت و محبت تھی۔ اسی عقیدت و محبت کااظہار تھاکہ اپنے چھوٹے بیٹے کانام غلام رشید رکھا۔ جو بعدمیں رشید احمدؒ کے نام سے معروف ہوئے۔
ابتدائی تعلیم
حضرت مولانا محمد چراغ صاحبؒ نے اپنی تعلیم کا باقاعدہ آغاز تقریباً سات سال کی عمر میں کیا۔ جب مشہور عالم دین حضرت مولانا محمود صاحب گنجوی گجراتیؒ نے آپ کو عربی قاعدہ کی بسم اﷲ کرائی۔ قرآن کریم کی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے گھر پر ہی حاصل کی۔ اس کے بعد اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اپنے برادر بزرگ محمد سراج صاحب عرف سراج الدین صاحب (جو اس دور کے منشی فاضل اور مولوی فاضل تھے) کے پاس لاہور تشریف لے گئے۔ تقریباً چار سال تک آپ نے لاہور میں قیام فرمایا اور مدرسہ نعمانیہ میں چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اسی دوران آپ نے فارسی کی اعلیٰ تعلیم اپنے بڑے بھائی مولانامحمد سراج صاحبؒ اورمولانا محمد عالم صاحب آسیؒ مصنف’’الکاویہ علی الغاویہ‘‘ سے حاصل کی اور اس کے علاوہ مولانا محمد عالم صاحب آسیؒ سے خوشخطی سیکھی اوراس فن میں کامل مہارت حاصل کی۔