دے رہی تھیں۔ حضرت مولانا چراغ صاحبؒ نے اس سلسلے میں بھی حضرت شاہ صاحبؒ سے مشورہ کیا۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے اظہار الحق مؤلفہ مولانا رحمت اﷲ کیرانویؒ، ازالۃ الشکوک اور اسی قسم کی دیگر بہت سی مفید کتب کے مطالعے کا مشورہ دیا۔ مولانا محمد چراغ صاحبؒ نے ان کتابوں کے مطالعے کے ساتھ مختلف انجیلوں اور بائبل کا مطالعہ کیا اور عیسائیت کے رد میں انتہائی مستند اور جامع مواد جمع کیا(جوغیر مطبوعہ شکل میں موجود ہے) اس کے علاوہ مختلف رسائل میں عیسائیت کے خلاف بہترین مضامین لکھے۔
جمعیت اتحاد العلماء کا قیام
اسلام کے خلاف فتنوںکا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں علماء کرام پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ان کی ادائیگی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ان کا آپس میں انتشار تھا۔ جس کی وجہ سے وہ صلاحیتیں جو ان فتنوں کے استیصال کے لئے استعمال ہونی تھیں۔ آپس کے جھگڑوں میں ضائع ہورہی تھیں۔ آپ نے مختلف مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے مفتی سید سیاح الدین صاحب کا کاخیلؒ اورمولانا گلزا ر احمد صاحب مظاہری مرحوم کے ساتھ مل کر جمعیت اتحاد العلماء کی تشکیل کی اور آپ جمعیت کے پہلے صدر منتخب ہونے۔ علماء کے باہمی اختلاف کو کم کرنے اور مملکت خداداد پاکستان میں نظام اسلامی کے نفاذ کی جدوجہد میں جمعیت اتحاد العلماء کا کردار بہت مثبت اور شاندار ہے۔
حضرت مولانا محمد چراغ صاحبؒ سیاسی میدان میں
حضرت الاستاذ مولانا محمد چراغ صاحبؒ نے جس وقت عملی میدان میں قدم رکھا۔ اس وقت برصغیر میں تحریک خلافت کا دور دورہ تھا۔ چنانچہ آپ نے سب سے پہلے جس سیاسی جلسے سے خطاب کیا۔وہ ضلع گجرات میں میکروالی کے مقام پر ہونے والا اسی سلسلہ کا جلسہ تھا۔ جس کی صدارت مولانامحمد علی جوہرؒ و مولانا شوکت علی کی والدہ ماجدہ نے کی۔ اس طرح آپ نے تحریک خلافت میں شمولیت کے ذریعے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ اس کے بعد آپ نے جمعیت علماء ہند میں شمولیت اختیار کی اور جمعیت علماء ہند ضلع گوجرانوالہ کے صدر مقرر ہوئے۔ اس کے علاوہ آپ نے مجلس احرار اسلام میں کافی عرصہ تک کا م کیا اور تحریک ختم نبوت کے سلسلے میںچھ ماہ کی قید کاٹ کر سنت یوسفیؒ کی یاد تازہ کی۔ کچھ عرصہ کے لئے آپ تبلیغی جماعت میں بھی رہے اور پھر قیام پاکستان کے بعد۱۹۴۹ء میں آپ نے جماعت اسلامی پاکستان کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ آپ کی نگاہ میں جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت تھی جو مطالبہ نفاذ نظام اسلامی اور اس