ہستی کے سایۂ عاطفت میں پہنچ گئے۔ جس کے علم کی دھوم دور دور تک پھیلی ہوئی تھی اور دارالعلوم جیسے عظیم علمی مرکز میں بھی آپ کے علم اور تعلیمی خصوصیات کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
استاذ الا ساتذہ حضرت مولانا ولی اﷲ صاحبؒ کی جوہر شناس نگاہوں نے اپنے ہونہار شاگرد محمد چراغ کی خداداد صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور انتہائی محبت اور توجہ سے علمی سرپرستی فرمائی۔ دندہ شاہ بلاول(اٹک) میں آپ نے حضرت استاذ الاساتذہ مولانا ولی اﷲ صاحبؒ کی خدمت اقدس میں تقریباً تین سال کا عرصہ گزارا اور مروجہ نصاب کے مطابق موقوف علیہ کی تکمیل کی۔
موقوف علیہ کی تکمیل کے بعد دورئہ حدیث کے لئے آپ کے دل میں دوبارہ دیوبند جانے کا شوق بیدار ہوا۔ آپ نے جب استاذالاساتذہ سے اس کا ذکر کیا تو حضرت نے نہ صرف یہ کہ اسے پسند فرمایا بلکہ اپنے قلبی تعلق اور پدرانہ شفقت و مودت کااظہار کرتے ہوئے سفر دیوبند کے لئے اپنی گرہ سے گیارہ روپے مرحمت فرمائے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ایک روپیہ ایک مہینے کے لئے کفالت کر سکتاتھا۔
دارالعلوم دیوبند میں داخلہ
دارالعلوم دیوبند پہنچے تو شیخ الادب والفقہ مولانا اعزاز علی صاحبؒ نے داخلہ کا امتحان لیا اور بڑی خوشی و مسرت سے دورۂ حدیث میں شرکت کی اجازت دی۔آپ نے جن اساتذۂ کرام سے علم حدیث حاصل کیا۔ ان کے اسماء گرامی مندرجہ ذیل ہیں:
بخاری وترمذی:از حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ۔
مسلم شریف:از حجۃ الاسلام حضرت حافظ محمداحمد صاحبؒ والد مولانا قاری محمدطیب صاحبؒ۔
سنن ابی داؤد:از سید اصغر حسین شاہ صاحبؒ۔
سنن ابن ماجہ: از حضرت مولانا رسول خان صاحبؒ۔
سنن نسائی: ازشیخ الاسلام مولانا شبیر احمدعثمانی صاحبؒ۔
مؤطا امام محمدؒ ومالکؒ وشرح معانی الاٰثار از حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن صاحبؒ۔
اگرچہ یہ تمام حضرات جبال علوم اورمعارف و عوارف کے بحر ہائے ناپیدا کنار تھے۔ لیکن مولانا محمد چراغ صاحبؒ کو جس ہستی نے سب سے بڑ ھ کر متأثر کیا۔وہ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ کی ذات گرامی تھی۔ آپ نے حضرت شاہ صاحب کے افادات و تقریرات کو لفظ بہ لفظ محفوظ کرنے کا اہتمام کیا اور دوران درس حضرت شاہ صاحبؒ کے افادات کو اردو سے عربی میں منتقل کرکے تحریر کرتے رہے۔