میں اسی صحبت میں محمود قادیانی کی تین باتوں پر بحث کرنا چاہتاہوں۔
۱… ایک تو یہ کہ کیا واقعی ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ میں مرزا قادیانی کی عبارت اس کے تبدیلی عقیدہ پر دلالت کرتی ہے؟
۲… دوم یہ کہ کیایہ عذر قبول ہوسکتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی کی تعریف تک کی واقفیت نہ ہو اور وہ عام لوگوں کی اتباع میں ختم نبوت کا قائل ہوتارہا ہو اور اس نے اتنی مدت مدیدہ تک قرآن مجید کی روشنی میں کچھ نہ کہاہو؟
۳ … سوم یہ کہ مرزائی عبارتوں اور اقوال میں سے کسی کو قابل نسخ سمجھا جاسکتا ہے یا نہیں اور کیا مرزا کے ختم نبوت کے اقوال درحقیقت منسوخ ہیں یا ہوسکتے ہیں۔
پہلی بات
محمود قادیانی کا خیال ہے کہ ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ میں مرزا غلام احمدقادیانی نے اپنے پہلے عقیدہ سے دستبرداری کر دی اور اعلانیہ طریق سے واضح الفاظ میں اپنی نبوت کا اعلان کردیا۔ گویا مرزا قادیانی نے اپنی سابقہ غلطی کا ازالہ کرنا چاہا۔ لیکن ایک غلطی کا ازالہ کی عبارت اس سے انکار کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا اپنی کسی سابقہ غلطی کا تدارک نہیں کرنا چاہتا۔ بلکہ اپنی امت کی غلطی کا ازالہ کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی مرزا قادیانی نے کسی عبارت میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ میںاب پرانے خیا ل سے دستبردار ہوتاہوں۔ بلکہ وہ توصاف صاف کہہ رہا ہے کہ میرا اس وقت بھی وہی عقیدہ ہے۔ جو پہلے تھا اور میری نبوت اس وقت بھی اسی قسم کی ہے۔ جس کا پہلے میںدعویٰ کرتارہا ہوں۔ اور میں نے اس معنی سے کبھی بھی اپنی نبوت سے انکار نہیں کیا۔ یعنی مرزا قادیانی نبی کا معنی وہی سمجھتا ہے جوپہلے سمجھتاتھا اور اپنی نبوت کے متعلق بھی اس کا وہی عقیدہ ہے جو پہلے تھا۔ملاحظہ ہو عبارت مرزا قادیانی:
(ایک غلطی کا ازالہ ملحقہ حقیقت النبوت ص۲۶۱)’’ہماری جماعت میں سے بعض۱؎صاحب جو ہمارے دعوے اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں۔ جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اورنہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنی معلومات کی تکمیل کرسکے۔ وہ بعض حالات میں مخالفین
۱؎ محمد علی لاہوری اور محمود قادیانی ونور دین بھیروی باوجودیکہ غور سے کتابیں دیکھنے والے ہیں اور مدت معقول انہوں نے صحبت کی ہے۔ مگر پھر باہم تیرے دعویٰ میں مختلف ہیں۔ معلوم یہ ہوتاہے کہ تمہارا اپنا ابھی تک کہیں خیال ایک نقطہ پر قائم نہیں ہوا۔۱۲منہ