فرشتہ تندرست آدمی کی شکل میں آیا تھا۔ جس کو بی بی مریم علیہا السلام نے اپنی طرف چل کر آتے دیکھ کر پناہ مانگی تھی اور نیز حضرت لوط علیہ السلام کے مہمان فرشتہ ہی تھے جنکو اس کی بدکار قوم دیکھ کر پکڑنے کے لئے دوڑی آئی تھی۔ دیکھو اس قصہ کو قرآن شریف میں سورئہ ہود کے ساتویںرکوع میں۔ باوجود اس قدر ثبوت کے پھر انکار کرنا مرزا قادیانی کاہی حوصلہ ہے۔
(توضیح المرام ص۶۸، خزائن ج۳ ص۸۶)میں مرزا قادیانی تحریر کرتے ہیں:’’سو فرشتہ اگرچہ ہر ایک ایسے شخص پرنازل ہوتا ہے۔ جو وحی الٰہی سے مشرف کیاگیا ہو۔ نزول کی کیفیت جو صرف اثر اندازی کے طور پر ہے، نہ واقعی طور پر یاد رکھنی چاہئے۔‘‘
ف… مرزا قادیانی نے اس تحریر میں اپنی پہلی چال بدل دی۔یعنی اس جگہ لکھتے ہیں کہ نزول کی اصل کیفیت جو صرف اثر اندازی کے طور پر ہے نہ واقعی طور پر۔ صریح قرآن کو اپنی تاویل کرکے رد کرتے ہیں۔
(توضیح المرام ص۷۰،خزائن ج۳ص۸۷)میں تحریر کرتے ہیں:’’اس وقت جبرائیل اپنانورانی سایہ اس مستعد دل پر ڈال کر ایک عکسی تصویر اپنی اس کے اندر لکھ دیتا ہے۔ تب اس فرشتہ کا نام روح القدس ہے۔ تو عکسی تصویر کا نام بھی روح القدس رکھا جاتا ہے۔ سو یہ نہیں کہ فرشتہ انسان کے اندر گھس آتا ہے۔ بلکہ اس کا عکس انسان کے آئینہ قلب میں نمودار ہوتا ہے۔‘‘
کیا ان باتوں سے ایمان والے لوگ قرآن صریح کو چھوڑ کرآپ کے دام میں آ جائیں گے؟ہرگز نہیں۔ کچھ لوگ اگر آگئے توکیاہوا۔
(توضیح المرام ص۳۲، خزائن ج۳ص۶۷)میں مرزا قادیانی لکھتے ہیں:’’ سو اصل بات یہ ہے کہ جس طرح آفتاب اپنے مقام پر ہے اور اس کی گرمی اور روشنی زمین پر پھیل کر اپنے خواص کے موافق زمین کی ہر ایک چیز کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اسی طرح روحانیات سماویہ خواہ ان کو یونانیوں کے خیال کے موافق نفوس فلکیہ کہیں یا دساتیر اور وید کی اصطلاحات کے موافق کواکب سے ان کو نامزد کریں۔ یا سندھی اور موحدانہ طریق سے ملک اﷲ کا ان کو لقب دیں۔ درحقیقت یہ عجیب مخلوقات اپنے اپنے مقام میں مستقر اور قرار گیر ہے۔
گمراہی اور ہدایت کو ایک بنانا بھی آپ ہی کا کام ہے۔
(توضیح المرام ص۳۲، خزائن ج۳ص۶۷)میں یوں لکھتے ہیں:’’ فرشتے اپنے اصلی مقامات سے جو ان کے لئے خداتعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے۔ ایک ذرہ برابر بھی آگے پیچھے نہیں ہوتے۔‘‘