کوئی شخص کہے کہ قرآن ایسا سخت زبان ہے کہ جس سے غایت درجہ کاغبی اور سخت درجہ کا نادان بھی بے خبر نہیں ہے اورنیز قرآن میں ایسے سخت الفاظ موجود ہیں جو بصورت ظاہرگندی گالیاں معلوم ہوتی ہیں۔ تو ایسے شخص کو تم مسلمان کہو گے یا کچھ اور ہی کہو گے۔ اے بندگان خدا خداوند قہار سے ڈر جاؤ اور ہر نماز میں فتنہ دجال سے پناہ مانگو۔ ہم تو کہتے ہیں:’’لعنت اﷲ علی الکاذبین‘‘ کہو اے مرزائیو آمین۔
(ازالہ اوہام ص۵۳۸، خزائن ج۳ص۳۸۹)میں مرزا قادیانی تحریر کرتے ہیں:’’اقوال سلف اور خلف درحقیقت کوئی مستقل حجت نہیں۔‘‘
ف… سبحان اﷲ اقوال سلف اور خلف تو حجت نہوں اور اپنی تعریف میں یوں لکھیں۔ دیکھو (الحکم نمبر۴۱ مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۰ئ) میں یوں تحریر کریں کہ ’’جس حدیث کو میں صحیح کہوں گاوہی صحیح ہو گی اور جو معنی قرآن شریف کے میں کروں گا وہی صحیح ہوںگے۔‘‘بے جا فخر ہو تو ایسا ہی ہو۔
(ازالہ اوہام ص۵۹۷، خزائن ج۳ص۴۲۲)میں مرزا قادیانی لکھتے ہیں:’’یہ کیا جہالت ہے کہ صحابی کو کلی غلطی اور خطا سے پاک سمجھاجاوے۔‘‘
ف… سبحان اﷲ!اپنی تعریف میں مرزا قادیانی (توضیح المرام ص۱۸، خزائن ج۳ ص۶۰) میں یوں تحریر کریں کہ ’’میرا الہام دخل شیطانی سے منزہ ہے۔‘‘ بیجا فخر ہو تو ایسا ہی ہو۔
اور (ازالہ اوہام ص۷۲۶،خزائن ج۳ص۳۹۲)میں مرزا قادیانی تحریر کرتے ہیں:’’اس زمانہ میں بلاشبہ کتاب الٰہی کے لئے ضروری ہے کہ اس کی ایک نئی اورصحیح تفسیر کی جائے۔ کیونکہ حال میں جن تفسیروں کی تعلیم دی جاتی ہے، وہ نہ اخلاقی حالت کودرست کر سکتی ہیں اور نہ ایمانی حالت پر نیک اثرڈالتی ہیں۔ بلکہ فطرتی سعادت اورروشنی کی مزاحم ہورہی ہیں۔‘‘
ف… اہل انصاف پر اب یہ امر بخوبی ظاہر ہو گیا ہو گا کہ مرزا قادیانی کا یہ مطلب ہے کہ تمام تفسیریں اعتبار کے لائق نہیں ہیں اور نہ ان کے پڑھنے سے ایمانی اور اخلاقی حالت درست ہوتی ہے۔ بلکہ ان کے پڑھنے نقصان ہوتا ہے اور جو نئی تفسیرمیں بیان کروںگا۔ وہ اعتبار کے لائق ہو گی۔ فخر ہو تو ایسا ہی ہو۔
(الحکم نمبر ۳۸ ج۴ ص۱۱ مورخہ ۲۴اکتوبر ۱۹۰۰ئ)میں عبدالکریم لکھتا ہے:’’آج سے ۵ ۲ سال پہلے حضرت مرزا قادیانی نے خدا تعالیٰ کی ہمکلامی اور مورد الہامات الٰہیہ ہونے کا دعویٰ کیا اور اسی طرح اپنے الہامات کو مدون اور مشتہر کیا۔ جس طرح قرآن کریم مدون اور مرتب اور مشتہر ہوا۔