ف… مرزا قادیانی نے اس جگہ بڑی دلیری سے خداوند قہار کا خوف دل سے دور کرکے خدا کی پاک کلام کی نسبت یہ لکھ دیا کہ اس میں ایسے سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو بصورت ظاہر گندی گالیاں معلوم ہوتی ہیں۔ افسوس ہے مرزا قادیانی نے انسان کی صورت او رمسلمان ہوکر قرآن پر یا خدا وند تعالیٰ پر یہ اعتراض کر دیا۔ کاش اگر مرزا قادیانی جن بھی ہوتے تو قرآن کی نسبت ان کے منہ سے یہ تو نکلتا قولہ تعالیٰ ’’فقالواانا سمعنا قرانا عجبا یہدی الی الرشد فامنّانہ‘‘یعنی پس کہا انہوں نے (جنوں نے اپنی قوم کو) تحقیق سنا ہم نے قرآن عجیب کہ راہ دکھاتا ہے طرف بھلائی کے۔ پس ایمان لائے ہم ساتھ اس کے اور خود اﷲ تعالیٰ قرآن کی تعریف میں یوں ارشاد فرماتا ہے ’’اﷲ نزّل احسن الحدیث کتٰبا‘‘یعنی اﷲ تعالیٰ نے اتاری بہتر بات کتاب۔
احسن بمعنی بہت خوب۔ اﷲ پاک توفرمادیں میری کتاب احسن الحدیث ہے اورمرزا قادیانی کہیں قرآن میں ایسے الفاظ ہیں جو بصورت ظاہر گندی گالی معلوم ہوتی ہیں۔ پھر ایسے شخص کو امام الزمان ماننا بعید از عقل ہے اوراگر یہاں یہ سوال ہوکہ مرزا قادیانی نے ایسا کیوں لکھا ہے۔ تو جواب یہ ہے کہ مرزا قادیانی پر سخت الفاظ اپنی تالیفات میں تحریر کرنے کے باعث لوگوں نے اعتراض کیا تھا۔ تو مرزا قادیانی نے اپنی سخت زبانی کے الزام رفع کرنے کے لئے یہ لکھ دیا یا بجہت ثبوت اصل عبارت نقل کرتاہوں۔
(ازالہ اوہام ص۱۲، خزائن ج۳ ص۱۰۸)میں مرزا قادیانی تحریر کرتے ہیں:’’پہلی نکتہ چینی اس عاجز کی نسبت یہ کی گئی ہے کہ اپنی تالیفات میں مخالفین کی نسبت سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔‘‘
ف… لیکن چہ نسبت خاک رابا عالم پاک۔ بیشک مرزا قادیانی اپنی سخت زبانی کے باعث عنداﷲ اور عندالناس بھی ملزم ہیں اور خدا وند تعالیٰ کا معاملہ جو مخلوق کے ساتھ ہے۔ وہ واقعی اور ٹھیک طور پر ہے۔ کیونکہ خدا وند تعالیٰ جیسے اکیلا تمام اشیاء کا خالق ہے ویسے ہی وہ تمام اشیاء کا اکیلا ہی مالک بھی ہے اور اس کو اپنی تمام مخلوق اور مملوک میں ہر طرح سے کرنے اورکہنے کا حق ہے۔
مخلوق میں سے کسی کی کیامجال ہے کہ اس پر اعتراض کرے یا اس سے پوچھے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا یا ایسا کیوں کہا۔ چنانچہ اس نے اپنی تعریف میں فرمایا ہے:’’لایسئل عما یفعل وھم یسئلون‘‘{نہیں سوال کیا جاتا اس چیز سے کہ کرتا ہے اور وہ سوال کئے جاتے ہیں۔}اب میں مرزائیو ں سے دریافت کرتا ہوں کہ اے مرزائیو! تم ہی ایمان سے سچ کہو کہ اگر