مبلغ ۱۰۰ روپیہ انعام اس شخص کو دیا جائے گا۔ جو یہ باتیں سچی ثابت کر دے۔ اگر نہ کر سکو تو کہو:’’لعنت اﷲ علی الکذبین…وکونوا مع الصٰدقین‘‘
۱… ’’محمدی بیگم میرے نکاح میں ضرور آئے گی۔‘‘ لیکن نہیں آئی۔
۲… ’’ڈاکٹر عبدالحکیم میرے سامنے ہلاک ہو گا۔‘‘ لیکن نہیں ہوا۔
۳… سلطان محمد (داماد احمد بیگ) میری زندگی میں مر جائے گا۔ اگر یہ بات پوری نہ ہوئی تو میں ہر ایک بد سے بد تر ٹھہروں گا۔‘‘
لہٰذا اس رسالہ کانام چودھویں صدی کا دجال رکھا گیا۔ کیونکہ چودھویں صدی کا ذکر اگلے اوراق میں آئے گا۔ ناظرین اس کو غور سے پڑھیں۔
’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘
’’الحمد ﷲ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علی من لانبی بعدہ‘‘ اس وقت میرے سامنے ایک رسالہ بنام ’’بدر کامل یعنی چودھویں صدی کا چاند‘‘ ہے۔ جس کے شروع میں مصنف رسالہ نے یہ شعر لکھا ہے:
چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا
ان کا یہ لکھنا کہ میں بدر یعنی چودھویں صدی کا چاند دیکھ کر بے کل ہو گیا۔ بالکل بے معنی ہے۔ کیونکہ کوئی شخص بدر کامل کو دیکھ کر بے کل نہیں ہوتا اور نہ اس میں کوئی بے کل ہونے کی بات ہے۔ ہاں اگر بدر کامل کو گرہن لگ جائے تو ضرور انسان اس کو دیکھ کربے کل ہو جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مصنف رسالہ کی نظر سے مرزا قادیانی کی عبارت مندرجہ ذیل گزری ہوگی۔ جس میں فرماتے ہیں کہ ’’آسمان پر چاند نے میرے لئے گواہی دی۔‘‘
(خطبہ الہامیہ ص۵۴، خزائن ج۱۶ ص۹۶ ملخص)
لیکن دنیا گواہ ہے کہ چاند نے مرزا قادیانی کی پیدائش سے لے کر موت تک کسی شخص کو زبان قال سے یہ نہیں کہا کہ مرزا قادیانی سچے ہیں۔ مگر مرزا قادیانی ۱۳۱۱ہجری کے گرہن سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ چاند نے میرے دعویٰ کے بعد میری صداقت کی گواہی دی۔ غالباً مصنف رسالہ