مکہ میں گزارا ہو سکتا ہے اور نہ قسطنطنیہ میں۔ تو پھرکس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اس کے برخلاف کوئی خیال اپنے دل میں رکھیں۔‘‘ (ملفوظات احمدیہ ص۴۶ج۱)
۵… ’’میں اپنے اس کام کو نہ مکہ میں اچھی طرح چلا سکتاہوں نہ مدینہ میں، نہ روم میں، نہ شام میں، نہ ایران میں، نہ کابل میں۔ مگر اس گورنمنٹ میںجس کے اقبال کے لئے میں دعا کرتا ہوں۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۶ ص۲۹، مجموعہ اشتہارات ج۲ص۳۷۰)
۶… ’’یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ ایک ایسی سلطنت کے زیرسایہ پیدا ہو جس کا کام انصاف اور عدل گستری ہو گا۔ سو حدیثوں سے صریح اور کھلے طور پر انگریزی سلطنت کی تعریف ثابت ہوتی ہے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۹، خزائن ج۱۵ص۱۴۵)
۷… ’’میری عمر کااکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میںنے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۵،خزائن ج۱۵ص۱۵۵)
۸… ’’اب اپنی گورنمنٹ محسنہ کی خدمت میں جرأت سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ بست سالہ میری خدمت ہے۔ جس کی نظیر برٹش انڈیامیں ایک بھی اسلامی خاندان پیش نہیں کر سکتا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس قدر لمبے زمانہ تک کہ جو ۲۰ برس کا زمانہ ہے۔ بلکہ ایسے شخص کا کام ہے جس کے دل میں اس گورنمنٹ کی سچی خیرخواہی ہے۔‘‘ (ضمیمہ تریاق القلوب ص ب، خزائن ج۱۵ ص۴۸۹)
مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ نبوت کاذبہ کی پرورش برطانوی سامراج نے کی اور اس نبوت کی تبلیغ صرف یہ تھی کہ حکومت برطانیہ کے خلاف مسلمانوں کے قلوب میں جو نفرت اور حقارت مرکوز تھی۔ اس کو ختم کیا جائے۔ مرزائی امت کے نزدیک آج تک کوئی شخص مرزا قادیانی کی نبوت کا اقرار نہ کرے۔ اس وقت تک وہ اسلامی حصار میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ اس کو مرزا کے وجود نامسعود کا علم بھی نہ ہو۔ چنانچہ مرزا بشیر تحریر کرتا ہے: