ترجمہ… اگر حکومت برطانیہ کی تلوار میری حفاظت کے لئے نہ ہوتیں تو مجھے تم لوگوں سے اس طرح کی تکالیف پہنچتیں کہ جس طرح عیسیٰ علیہ السلام کو کفار سے پہنچتی تھیں۔ اس بناء پر ہم حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ خوشامد کے طریق پر نہیں بلکہ سرکار کے شکریہ کی بناء پر۔ خدا کی قسم ہم اس حکومت کے زیرسایہ اس طرح امن سے ہیں کہ حکومت اسلامیہ سے بھی ان دنوں اس طرح امن کی امید نہیں۔ ان متنوع احسانات کی بناء پر ہمارے لئے جائز نہیںکہ اس حکومت کے خلاف جہاد کے لئے تلوار بلند کی جائے اور ان سے جنگ کرنا اور ان کے خلاف بغاوت قائم کرنا مسلمانوں پر حرام ہے۔ اس لئے کہ اس حکومت کے ہم پرکئی احسانات ہیں۔ احسان کا بدلہ احسان ہوتا ہے۔‘‘ (ضمیمہ حقیقت الوحی الاستفتاء ص۵۶، خزائن ج۲۲ص۶۸۰)
۲… ’’فخلاصۃ الکلام انا وجد ناہذہ لحکومت من المحسنین فاوجب کتاب اﷲ علینا ان نکون من الشاکرین۔‘‘
ترجمہ… ’’اﷲ کی کتاب نے ہمارے اوپرلازم کیا ہے کہ ہم اس حکومت کے شکر گزا ر رہیں۔ اس لئے کہ ہم نے اس حکومت کواحسان کرنے والا پایا ہے۔‘‘
(ضمیمہ حقیقت الوحی الاستفتاء ص۵۷، خزائن ج۲۲ ص۶۸۱)
۳… ’’بیس برس کی مدت سے میں اپنے جوش دلی سے ایسی کتابیںزبان فارسی، عربی اور اردو اور انگریزی میں شائع کر رہا ہوں۔ جن میںبا ر بار یہ لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کا فرض ہے جس کے ترک سے وہ خداتعالیٰ کے گنہگار ہیں کہ اس گورنمنٹ کے سچے خیر خواہ او ر دلی جان نثار ہو جائیں اور جہاد اور خونی مہدی کے انتظار وغیرہ بیہودہ خیالات سے جو قرآن شریف سے ہرگز ثابت نہیں ہو سکتے، دست بردار ہو جائیں اور اگر وہ اس غلطی کو چھوڑنا نہیں چاہتے تو کم سے کم یہ ان کا فرض ہے کہ اس گورنمنٹ کے ناشکرگزار نہ بنیں اورنمک حرامی کر کے گنہگار نہ ٹھہریں۔‘‘
(تریاق القلوب ضمیمہ ص۳، خزائن ج۱۵ص۴۸۸،۴۸۹)
۴… ’’اس گورنمنٹ کے ہم پراس قدر احسان ہیں کہ اگر ہم یہاں سے نکل جائیں تو نہ ہمارا