رسول اﷲ ﷺ پر ایمان لاکر سخت عبادت اور ناگوار ایثار کا پابند ہونے کی بجائے آدمی ایک بھنگڑ کے نعرہ مستانہ کو وحی سمجھ کر ریش و بروت کی صفائی کومغز عبادت اور آوارگی و بے لگامی کو کمال معرفت کیوں نہ قرار دے۔ تحریک احمدیہ نے ختم نبوت کو اڑا کر اسلام کو تبلیغی مذہب ہونے کے قابل نہیں چھوڑا۔ ہر شخص آزاد ہے اور کوئی کسی کا اتباع کرنے پر مجبور نہیں ہو سکتا ۔تو نہیں اور سہی اور نہیں او ر سہی۔
حضرت محمدﷺکے بعد مرزا قادیانی تشریف لائے تو قرآن میں بار بار خلود فی النار (آگ میں ہمیشہ جلنا) کا ذکر دیکھ کر جس خوف و دہشت سے جان ہوا ہورہی تھی اس سے نجات ملی۔ دوسرے اپنی جان کو خدا کے راہ میں قربان کرنے کا جو ہوش ربا فریضہ گردن پر سوار تھا۔ اس سے آزاد ہوگئے تو کیوں نہ انتظار کریں۔ شاید کوئی اور ملہم پیدا ہو اور حج اور زکوٰۃ سے بھی سبکدوش کردے۔ یا بعض مناھی محرمات کی اجازت دے۔ جب یہ سلسلہ جاری ہے اور گزشتہ احکام پر خط تنسیخ کھینچ سکتا ہے۔ تو کبھی نہ کبھی اب سے زیادہ آسانی پیدا ہونے کا بھی احتمال ہے۔ کیا یورپ میں یہی تبلیغ ہوتی ہوگی۔ جس کے لئے مسلمانوں سے مدد طلب کی جاتی ہے؟
مگر نہیں،یاد رکھئے تبلیغ اسلام کی ایک طرف احمدیہ کی تبلیغ بھی نہیں ہوسکتی۔ جب تک یہ ثابت نہ کیا جائے کہ جو انوار و برکات اس تحریک کے اتباع پر مرتب ہوتے ہیں۔ وہ نہ کبھی پہلے حاصل ہوئے اور نہ اس تحریک میں داخل ہونے کے بغیر حاصل ہو سکتے ہیں۔ یعنی جس ہدایت کی طرف بلایا جاتا ہے۔وہ مکمل ہے۔ بے نظیر ہے۔ آخری ہے اور رائل روڈ ہے۔ جب تک نبوت ختم نہیں ہوئی۔ جس قدر انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ سب خاص اقوام کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ ایک قوم کے سوا دوسرے قوم سے ان کا سروکار نہ تھا۔ اس لئے ایک وقت میں کئی کئی پیغمبر مبعوث ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کا حنیف ہونا انہیں متبوع خلائق بناتا ہے۔ ان کے زمانے میں بھی سدومیوں کی طرف حضرت لوط علیہ السلام مبعوث کئے گئے۔
کافۃ الناس کے لئے نبی جبھی مبعوث ہو سکتا ہے کہ اس کی شریعت مکمل ہو اور اس کے بعد وحی و الہام منقطع کردیاجائے۔ یہی ہوتا تھا اور ہوچکا۔ اب کسی مجدد، کسی محدث اور کسی نبی پر وحی و الہام کے منقطع سلسلہ کو جاری نہ سمجھو۔