وغیرہ کے دیوتاؤں اور دیویوں کی طرف جھکتا رہا۔ آخر میں صاف اور صریح الفاظ کے اندر وحی کا نزول ہونے لگا تو جب بھی جناب مسیح علیہ السلام کے محاورہ میں خدا کے لئے ہمارے آسمانی باپ کا لفظ استعمال کیاگیا اور لوگوں نے پدرانہ تعلق کا ذکر سن کر جناب مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا سمجھ لیا۔
غرض ہر وحی کے بعد انسان نے ذات خداوندی کو سمجھنے کی کوشش کی ہے تو اس کے لئے کسی نہ کسی طرح کی جسمانی شکل اور جسمانی اوصاف مان لئے ہیں۔ یہ صرف اسلامی وحی کا خاصہ ہے کہ اس نے ذات و صفات خداوندی کے ذکر میں کبھی اور کہیں ایسا کوئی لفظ استعمال نہیںکیا۔ جس سے آئندہ غلط فہمی کا ظہور اور کسی محسوس یا غیرمحسوس مخلوق کو معبود سمجھنے کا امکان ہو۔ بلکہ اس نے ’’لیس کمثلہ شی(الشوریٰ:۱۱)‘‘{اس کی مثال بھی کوئی نہیں}
’’سبحان اﷲ عما یصفون(الصف:۱۵۹)‘‘{وہ لوگوں کی ہر طرح کی توصیف سے بالا تر ہے} اور ’’لایحیطون بہ علما(طہٰ:۱۱۰)‘‘{اس کو کسی کا علم گھیر نہیں سکتا۔}جیسے صاف اورصریح الفاظ میں سمجھایاگیا کہ خدا ہر طرح کے ناقص اور ناپائیدار اوصاف سے مبرا اور انسانی فہم و قیاس میں درآنے سے بالاتر ہے اور اسے رب العٰلمین(سب کوپالنے والا) کہہ کر پدرانہ شفقت و رحم کاتصور قائم رکھا ہے اور پسری تعلق کا اندیشہ پیدا نہیں ہونے دیا۔ یہی وہ غایت معرفت ہے۔ جس تک انسان پہنچ سکتا ہے کہ بجائے خدا کو سمجھنے کے یہ سمجھا جائے کہ اسے کوئی سمجھ نہیں سکتا۔ اس سے آگے نہ انسانی فہم ترقی کر سکتا ہے اور نہ اس کو ترقی دینے کے لئے کسی وحی و الہام کی ضرورت۔
اب انسان تمام ادیان سابقہ کو چھوڑ کر ہی اس معراج کمال تک پہنچ سکتا ہے اور اسلام کے بعد آئندہ کے لئے ہر قسم کے انتظار اورامید سے یکسو ہوکر اطمینان کے ساتھ اسلام پرقائم رہ سکتا ہے اور اسلام کا یہی وصف ہے جس کی وجہ سے تمام دنیا میں اسلام کی منادی کرنے اور کافۃ الناس کو اس کی طرف دعوت دینے کی ضرورت ہے۔ احمدی مبلغین اسلام کے اس وصف سے آشنا نہیں ہیں اور انہیں تعلیم ہی ایسی دی جاتی ہے کہ وہ ہمیشہ مفتری کو ملہم من اﷲ سمجھنے کے لئے تیار ہیں۔ وہ اسلام کے ایسے مخصوص اوصاف اور کمالات کو کب پیش کر سکتے ہیں۔ جن سے انسان اسلام کی آغوش میں آنے پر مجبور ہو۔ جب وحی و الہام کا دروازہ ہمیشہ کے لئے مفتوح ہے تو محمد