یعنی جو عظیم الشان کام صدیوں کے اندر بتدریج ترقی کرتا آیاتھا۔ اس کی تمامیت پر ’’الیوم اکملت لکم دینکم(المائدہ:۳)‘‘ {آج تمہارا دین ہم نے مکمل کردیا۔}کی مہر ثبت ہوگئی اور ’’انا لہ لحافظون (الحجر:۹)‘‘{ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔}کے وعدہ نے اضاعت کا اندیشہ دور کیا۔ آئندہ کوئی جدید ہدایت نازل کرنے کی ضرورت نہ رہی۔ حضور علیہ السلام خاتم النبیین قرار پائے۔ اب بے وجہ وحی کا نزول نہ ہوگا۔ اس کا سب سے اعتراف کروایا گیا:’’ربنا ماخلقت ہذاباطلا (آل عمران:۱۹۱)‘‘{اے رب تو نے یہ بے فائدہ نہیں پیداکیا۔}اور سب کو تنبیہ کی گئی کہ خالق کا کوئی فعل عبث نہیں۔ ’’افحسبتم انما خلقنا کم عبثا (المومنون:۱۱۵)‘‘{کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے تم کو بے فائدہ بنایا۔}
وحی والہام ہمیشہ نازل ہوتارہا ہے اور اس نے ہمیشہ توحید ربانی سے آشنا کرنے کا کام دیا ہے۔ مگر قواء عقیلہ کی خامی و پختگی، تدبر و تفکر کی صلاحیت اوربر وقت کی زبان اور محاورہ کے اندر مطالب کو کماحقہ ظاہر کرنے کی قابلیت میں جس قدر تفاوت رہا ہے۔ اسی قدر مسئلہ توحید کو ذہن نشین کرنے اور معرفت ربانی تک پہنچنے میں نقص یا کمال کاظہور ہوا ہے۔ ابتداء میں بہت زیادہ نقص باقی رہا اور پھر بتدریج اس میں کمی ہوتی گئی۔ وقت اور ہر زمانے کی وحی محفوظ نہیں رہی۔ مگر اس کو اخذ کرنے کے بعد توحید کے سمجھنے میںجو غلط فہمیاں ہوتی رہی ہیں۔ ان میں سے اکثر اوراق زمانہ پرثبت ہیں۔ ابتداء میں کسی خوشنمادرخت یا کسی عجیب جانور کو دکھاکر بتایا گیا کہ خدا ان میں سے زیادہ باجمال اور اس سے زیادہ تعجب انگیز قدرت رکھنے والا ہے اور ان درختوں اور جانوروں میں اس کی قدرت کاملہ کا ظہور ہے۔ اس تبلیغ نے قرب خداوندی کا شوق پیداکیا۔
مگر نادانی نے یہ اثر دکھایا کہ کچھ عرصہ کے بعد گائے اور بندر جیسے جانوروں اور پیپل اور تلسی جیسے درختوں کی بطور ایک معبود کے پرستش ہونے لگی۔ آئندہ انسانی ہوش و حواس نے ترقی کی اور پیش پاافتادہ چیزوں سے نظر آگے جانے لگی تو قدرت خداوندی کو ہوا، پانی اور آگ جیسی زبردست طاقتوں سے تشبیہ دی گئی۔ جس نے عناصر پرستی کا دروازہ کھولا۔ اسی طرح جس قدر دور کی چیزوں تک اور غیر محسوس قوتوں تک رسائی ہوتی گئی۔ ان سے سامان ترغیب پیدا کیاگیا اور ہدایت کی طرف بلایاگیا اور انسان خدا کی تلاش میں اجرام سماوی کی طرف اور بارش اور دولت