حیث لا یعلمون (القلم:۴۴)‘‘{ہم ان کو بتدریج اس عذاب تک لے جائیں گے جو انہیں معلوم نہیں۔}کا حکم ہی قانون قدرت کے مطابق ہے۔
مگر خیر میرااصل مطلب یہ تھا کہ کسی قدرعذاب ایک تومرزا قادیانی کے نزدیک سب کے لئے عام سزا ہے اور وہی مسلمانوں کو مرزا قادیانی کا انکار کرنے کی وجہ سے ملے گی اور دوسرے اگر مسلمانوں کو مرزا قادیانی کا انکار کرنے کے بعد دیگر کفار کی نسبت عذاب کم دیا جائے گا۔ مگر دیا ضرور جائے گا۔ جب بھی اگر مرزا قادیانی تشریف نہ لاتے تو مسلمان اپنے گناہوں پر عذاب پاتے مگر اس عذاب سے جو مرزا قادیانی کے انکار سے مترکب ہوا ضرور محفوظ رہتے۔
پس جہاں مرزا قادیانی سے پہلے دنیا کے تمام مسلمان اس خاص عذاب سے محفوظ تھے۔ وہاں مرزا قادیانی کی آمد پر چالیس کروڑ میں سے چند ہزار یا چند لاکھ بچ سکیںگے۔ باقی سب معذب ہوںگے۔ پس آپ کی آمد امت محمدیہ کے لئے خوش قسمتی کیا ہوئی، سخت بدقسمتی کیوں نہ ہوئی؟
رہا وہ کام جو مرزا قادیانی کے بعد آپ نے اور خواجہ کمال الدین صاحب نے ممالک غیر میں جاری کیا ہے۔ اس کی کمیت اور کیفیت مجھے معلوم نہیں۔ البتہ ایک بار یاد پڑتا ہے۔ میں نے کمال الدین کی زبان سے سنا تھا کہ یورپ میں احمدی اور غیر احمدی کا مناقشہ پیدا کرنا مناسب نہیں۔ وہاں صرف اسلام کی دعوت دی جاتی ہے۔ اگر ایسا ہے اور اگر اس کام پر وہ تمام اعتراض غلط ہیں۔ جو اخباروں میں وقتاً فوقتاً نکلتے رہتے ہیں۔ تو بیشک آپ کے کام کو اسلامی کام سمجھنے کے سوا چارہ نہیں۔ مگر ایک تو میں یہاں دیکھتاہوں کہ احمدی جماعت کا کوئی فرد کسی مجلس میں شریک ہو اور وہ سب کیسے ہی ضروری کام میں یا کیسی ہی مصیبت کومندفع کرنے میں مصروف ہوں۔ احمدی بہادراحمدیہ کو پیش کرتا اور بحث کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
اس میں احمدیوں کو عیب نہیں سمجھتا۔ ہنر جانتا ہوں اور بیشک انسان کو اپنے مسلک کی تبلیغ کا ایسا ہی شغف ہونا چاہئے۔ آریہ بھی یہی وصف رکھتے ہیں اور مسلمانوں میں سے شیعہ اور اہل حدیث بھی کسی قدر اس وصف سے متصف ہیں۔ کاش تمام مسلمانوں کو اپنے گھر کی ایسی معلومات اور ان کو پھیلانے کا ذوق ہوتا۔ مجھے صرف یہ تعجب ہے کہ احمدی حضرات وقت کی ضرورت کو بھی نہیں دیکھتے اور بعض اوقات بحث میں وہ کام خراب کر دیتے ہیں۔ جس کے لئے جمع ہوں۔ ان کی اس عادت کو دیکھتے ہوئے میں حیران ہوں کہ یورپ میں کام کرنے والوں کی احمدی فطرت کیونکر بدل جاتی ہوگی اور وہاں احمدی سے صرف مسلمان کیونکر رہ جاتے ہوںگے او ر اگر