اپنے عقائد اور اعمال کے لحاظ سے نجات کے مستحق او ر رضوان الٰہی کے حصہ دار تھے۔ ایک مرزا قادیانی کو نہ ماننے کی وجہ سے ناری اور مستحق عذاب ہوگئے اور آپ نہ آتے تو وہ بدستور اپنے اپنے مدارج کے مطابق جنتی ہوتے اورطرفہ تر یہ ہے کہ توحید کے بارے میں جو تجدید مذہب کا مقصد وحید ہے۔کوئی اصلاح بھی نہیں ہوسکی۔
محمد عربی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آسمانی باپ کی بجائے رب العالمین اور لم یلد ولم یو لد کی تلقین کی تو جن عیسائیوں نے اس عقیدہ کو نہ مانا ان کا راندہ درگا ہ ہونا حق بجانب تھا۔ یہاں وہی اقرار توحید اور وہی موحدین کی عبادت قائم رہی اور باوجود اس کے موحدین مرزاقادیانی کے آنے سے پہلے ناجی تھے اور بعد میں معذب ہوگئے۔ اس لحاظ سے آپ کی آمد کو امت محمدیہ کی بربادی کہنا چاہئے یااصلاح؟
یہ مانا کہ مرزا قادیانی اپنے منکرین کو ایک حد تک عذاب کا مستحق فرماتے ہیں نہ کہ دائمی عذاب کا۔ مگر ایک تو مرزا قادیانی کا ایسا دعویٰ مسلمانوں کے علاوہ تمام کفار عالم کے لئے ہے اور وہ خلود فی النار کو تسلیم نہیں فرماتے۔ یہ بھی ہم جیسے گنہگاروں کے لئے ایک دل خوش کن خط تنسیخ ہے۔ جو مرزا قادیانی نے قرآن کی کئی آیتوں پر اپنے پیغمبرانہ اختیار سے کھینچا ہے۔ کاش قرآن کونازل کرنے والا خدا بھی اس کومنظور فرما لیتا۔ مگر افسوس کہ قانون قدرت اس کے خلاف شہادت دیتا ہے۔ انرشیا کی طاقت رفتار کے بعد سکون اور سکون کے بعد رفتار کبھی پیدا ہونے نہیں دیتی۔ جب تک کوئی مخالف قوت اس کی مزاحمت نہ کرے۔ بلکہ ایک چیز کو حالت اور ہر ایک انسان کی جو عادت ایک بار پیدا ہوجائے۔ وہ ہمیشہ ترقی کرتی رہتی ہے اور بدلنے کے لئے ویسی ہی زبردست مخالف قوت کا انتظا ر کرتی ہے۔
پس اگر کسی کے دل میں ایمان کا سونا موجود ہے اور معصیت کا زنگ اس پرغالب آ گیا ہے۔ تو عذاب کی آگ سے جل کرزنگ کا دور ہونا اورخالص سونے کا دوبارہ قیمت پانا ممکن ہے۔ لیکن اگر کفر و شرک نے قلب کو بالکل تاریک کر دیا ہے۔ تو موت کے بعد نہ تو بہ کا سوہان کارگر ہوسکتا ہے۔ نہ ایمان کی تجلی اڑسکتی ہے۔کیونکہ دار آخرت دارالعمل نہیں۔ دارالمکافات ہے۔ وہاں تاریکی کے اندر ابدالاباد تک ترقی پانے اور عذاب میں گرفتار رہنے کے سوائے کوئی صورت سنت اﷲ کے اندرنظر نہیں آتی اور کافر وہاں جا کر کوئی عمل نہیں کر سکتا۔ جس سے اس کے دل کی تاریکی دور ہو اور نور ایمان حاصل کرکے جلوہ ضیاء ربانی کا مستحق بنے۔ وہاں ’’لترکبن طبقا عن طبق(الانشقاق:۱۹)‘‘{تم درجہ بدرجہ چڑھتے جاؤگے۔}اور ’’سنستدرجہم من