کی ذات سے ناواقف ہو اورآپ کے کفر و اسلام کی نسبت کوئی خیال نہ رکھتاہو تو اس کا اقتداء جائز ہے یا نہیں۔
آپ نے کہا:’’اسے ہماری نسبت واقف کرو اور پوچھو کہ وہ ہمیںمانتا ہے یا نہیں؟ اگر مانے تو اقتدا کرو ورنہ نہیں۔‘‘ پھر فرمایا کہ’’خدا ایک علیحدہ جماعت بناناچاہتا ہے۔ تم لوگ اس کے حکم کے خلاف اغیار میں شامل رہنے کی کوشش کیوں کرتے ہو؟ (اوکماقال)
مجھے مرزاقادیانی کے خاص الفاظ مستحضر نہیں رہے۔ مگر میں نے خود یہ واقعہ الحکم اخبار میں پڑھا ہے۔ اس کا مفہوم یہی تھا۔ پس جب مرزاقادیانی خود اپنی جماعت کو مسلمانوں سے علیحدہ کرتے ہیں۔ تو احمدی اپنے تئیں مسلمانوں میں شامل رکھنے پر فخر کیوں کرتے ہیں۔کوئی مسلمان اپنے تئیں عیسائی نہیں کہتا اور مسیح علیہ السلام اوران کی کتاب کو ماننے کے باوجود عیسائی ہونے کا فخر نہیں کرتا۔ تو احمدیوں میں اس غیرت کا فقدان کیوںہے؟ مسلمانوں کا نام مسلم خود خدا نے رکھا ہے۔’’ھوسمّٰکم المسلمین (الحج:۷۸)‘‘{ہم نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے۔} اور اپنی جماعت کا نام احمدی خود مرزا قادیانی نے رکھا ہے اور وہ بھی خدا کی طرف سے مامور ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پس جب عیسائی اورمسلمان ایک نہیںہو سکتے تو مسلمان اور احمدی دو کیوں نہ ہوئے؟
مسلمان حضرت محمد ﷺ کی غلامی میں آکر اپنے تئیںآنحضرت ﷺ کی ذات عالی سے وابستہ کرنے میںاپنی سعادت سمجھتے ہیں اور تمام انبیاء سلف علیہم السلام پر ایمان رکھنے کے باوجود محمد عربی علیہ الصلوٰۃ السلام کی امت میں داخل ہونااپناطغراء امتیاز جانتے ہیں۔ احمدی جماعت ان سب کے بعد ایک اور آقا کا دامن پکڑتی ہے۔ اسے مامور من اﷲ سمجھتی ہے۔ اس پروحی ربانی نازل ہونا مانتی ہے۔ اس کی آمد پر شریعت محمدیہ کے بعض مسائل (جہاد وغیرہ) کی تنسیخ کی قائل ہے۔ اپنے رہنماء کو مسیح علیہ السلام سے افضل مانتی ہے۔ بلکہ فضیلت معراج جو مسلمانوں کے نزدیک محمد عربی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تما م انبیاء علیہم السلام سے ممتاز کرتی ہے۔ بقول مرزا قادیانی اس کا احمدیوںکے مقتداء کو ذاتی تجربہ ہے۔
غرض نبوت کی کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ فضیلت کوئی شان کوئی اختیار ایسا نہیں ہے۔ جو احمدیوں کے مقتداء میں نہ مانا گیا ہو۔ مگر باوجود اس کے وہ اپنے تئیں اپنے مقتداء کی ذات خاص سے وابستہ کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں اور اپنے رہنماء کا حکم پاتے ہوئے اپنے تئیں مسلمانوں سے علیحدہ جماعت قرار نہیں دیتے تو کیا احمدیوں کے اور بالخصوص لاہوری فرقہ کے ان متضاد