بلکہ بروزی کا لفظ ایسے مکروہ خیال کی طرف اشارہ کرتاہے۔ جو ایک مسلما ن کے دل میں داخل ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ ہندوستانی خیال ہے اور وہ بھی خدا کی نسبت کہ وہ اپنے برگزیدہ بندوں کے اندرداخل ہوتا اور ان میں خدائی صورت پیدا کردیتاہے۔ ہندو ایسے شخص کو ایشور کا اوتار کہتے ہیں۔ اس کا ترجمہ کرنے کے لئے ادھر والوں نے حلول یا ظہور کا لفظ استعمال کیا ہے اورکہتے ہیں کہ بقو ل ان کے فلاں شخص خدا کا مظہر ہے یا خدا نے اس میں حلول کیا ہے۔
مسلمانوں نے کبھی اس خیال کو قابل اعتماد نہیں سمجھا۔ صرف ان کے علم میں ہے کہ ہندو ایسا عقیدہ رکھتے ہیں۔ احمدی مجلس میں اس علم سے کام لینے کا جذبہ پیدا ہوا تو گمان ہوتا ہے کہ
(بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ) تو’’یأتی قمر الانبیائ‘‘ (تذکرہ ص۲۰۷، طبع۳) ’’انت منی بمنزلۃ ولدی‘‘ (تذکرہ ص۵۲۶، طبع۳) {تم نبیوں کے چاند ہو اور تم میرے بیٹے کے برابر ہو۔}
اور ایسے ایسے الہاموں کو دیکھ کر مرزا قادیانی کی ہرگونہ عظمت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ مگر حقیقت کو دیکھنے والے جانتے ہیں کہ انسان کے اندر کلام کی قوت پیدا کرنے کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے دلی خیال کو دوسرے کے دل میں داخل کرنے سے عاجز ہے اور صرف اپنی آواز کسی کان تک پہنچا سکتاہے۔ مگر خدا عاجز نہیں قادر مطلق ہے۔ انسان کا دل اس کے قبضہ میں ہے۔ وہ کسی بندہ سے خوشنود ہوتا ہے تو اپنی خوشنودی کاایقان اس کے دل میں پیدا کر سکتا ہے۔ ایسے بندہ کا دل اطمینان کی دولت سے معمور ہوتا ہے۔ وہ تقویٰ و طہارت کی پابندی میں لذت محسوس کرتاہے اور خودبخود یقین کرلیتاہے کہ خدا مجھ پر مہربان ہے۔
بندہ کو اس وقت کان سے سننے کی ضرورت نہیں تو خدا کو کلام کرنے کی ضرورت کیا۔ بلکہ اس سے بڑھ کر خدا کو اس سے کوئی کام لینا مقصود ہوتا تو دل میں اس کا پختہ ارادہ پیدا کر دیتاہے۔ کسی حقیقت کو اس پر منکشف کرنا ہوتا ہے تودماغ کو خودبخود سمجھ لینے کی صلاحیت عطا کرتاہے۔ یہی الہام کی حقیقت ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔ اس لئے بڑے بڑے مصنفین اپنی تحریر میں کوئی عجیب نکتہ بیان کرتے ہیں تو لکھا کرتے ہیں:’’ہذاما الھمنی ربی‘‘{اس نکتہ کا الہام خدا کی طرف سے ہے۔}
البتہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر اپنا کلام نازل فرمایا ہے کہ وہ دوسروں کو سنائیں اور خدا کے احکام ان کے دل تک پہنچائیں کہ دوسروں کے دل پر انبیاء کا بھی قبضہ نہیں۔یہ فریضہ انبیاء سے مخصوص ہے۔ خدا سے ہم کلام ہونا بھی انہی کا امتیازی خاصہ ہے۔ اوروں کو اس کی ضرورت نہیں اور خدائے حکیم حکمت سے خالی اوربے ضرورت عمل کرنے سے بالاترہے۔