مجدد پیغمبر کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔ چہ جائیکہ اس سے افضل ہو۔ ایک وضعی حدیث میں علماء امت کو انبیاء بنی اسرائیل کی مانند کہاگیاہے۔ مگر اس بھلے مانس نے بھی رسول مقبولﷺ پر تہمت تراشتے ہوئے علماء امت کو صرف انبیاء کی مماثلت تک پہنچایا ہے۔ افضل کہنے کی جرأت نہیں کرسکا۔ رسول سے افضل خاص رسول ہی ہوسکتا ہے۔ خدا فرماتا ہے:’’تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض (البقرۃ:۲۵۳)‘‘{یہ انبیاء انہی میں سے ہم نے بعض کو بعض سے بہتربنایاہے۔}
یہاں مبتداً کے بعد خبر کو جملہ کی شکل دی گئی ہے۔ جو حسب قواعد فصاحت تخصیص کا فائدہ دیتی ہے ۔جیسے’’اناسعیت فی حاجتک‘‘(میں نے ہی تمہاری ضرورت کے وقت کوشش کی ہے)اورمعنی یہ ہوتے ہیں کہ ان مرسلین ہی کو ہم نے ایک دوسرے سے افضل بنایا ہے۔ غیر کو مرسلین سے افضل نہیں بنایا۔
اور دیکھئے فرقہ لاہوری مرزا قادیانی کو ظلی اوربروزی نبی مانتا ہے اور ان پر پیغام الٰہی نازل ہونے کا اعتراف کرتا ہے اور کیوں نہ کرے جبکہ مرزا قادیانی نے اگر کبھی ’’من نیستم رسول و نیا وردہ ام کتاب‘‘جیسے فقرے بھی چست کئے ہیں۔ تو بار بار اپنے تئیں ظلی نبی ، بروزی نبی اور ان قیدوں سے الگ رہ کر مطلق نبی بنایا ہے اور خدا کا کلام جو ان پر نازل ہوا ہے۔ کثرت سے شائع کیا ہے ۔ یہ منصب جسے ظلی اور بروزی نبی کہتے ہیں۔ قرآن وحدیث میںاس کا اشارہ بھی نہیں ہے اورکسی مجدد اورمحدث نے یہ اصطلاح اختراع نہیں کی اور یہ اصطلاح ہے بھی غلط۔ خدا کا ظل ہو سکتا ہے۔ نبی کاظل نہیں ہوسکتا۔ خدا سب کا خالق ہے۔ وہ موجود ہے۔ تو اس کی مخلوق بھی موجود ہے۔ جیسے دیوار موجود ہے تو اس کا سایہ بھی موجود ہے۔ اس لحاظ سے ہر چیز ظل اﷲ ہے اور بادشاہ کو ظل اﷲ کہنے کی لم حدیث میں نہیں قرآن میں ملتی ہے۔ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ہے:’’ربی الذی یحییٰ ویمیت (البقرہ:۲۵۸)‘‘{میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔}
اور بادشاہ نے جواب دیا: ’’أنا أحیی وامیت‘‘ (میں زندہ کرتاہوں اور مارتاہوں۔)اس کا یہ جواب اسے معبود ثابت نہیں کر سکتاتھا۔ اس لحاظ سے غلط تھا۔
مگر اس لحاظ سے صحیح تھا کہ ایک قاتل جس کی نسبت خدا کا حکم ہے کہ مار دیا جائے۔ وہ رہا کر سکتا ہے اور ایک بے گناہ کوجس کی نسبت حکم ہے کہ مارا نہ جائے،قتل کر سکتا ہے۔ رضاء خداوندی کے خلاف اتنااختیار زندگی اور موت اسے بھی حاصل ہے۔ پس وہ خدا نہیں تو خدا کا سایہ ضرور ہے اور اس جواب میں یہی قوت تھی۔ جس کو دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس بحث کو طول نہیں دیا