بزرگوار مرزا قادیانی سے پہلے مجدد ہوئے ہوںگے اور جو سینکڑوں پاکیزہ روحیںمحدث کے رتبہ تک پہنچی ہوںگی۔ ان کا مرزا قادیانی کی طرح بلند آہنگی سے اپنی ماموریت کا اعلان کرنا اور منکرین اطاعت سے مباہلہ اور مناقشہ اور مجادلہ کا دنگل جمانا اور ان کو دنیا اور آخرت کے عذاب سے ڈرانا ایک طرف، ان میں سے کسی ایک نے اپنی مجددیت، محدثیت اور وجوب اطاعت کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا۔
پس یہ سب بزرگوار اگر ایک ہی منصب پرفائز ہیں۔ تو ان میں سے تعداد کثیر کا طرز عمل ایک طرف ہے اورتنہا مرزا قادیانی کا طریق کار ایک طرف، اور ضرور ان میں سے ایک غلط ہے۔ تعداد کثیر کے طرز عمل کو غلط ماننے میں ایک تو ان کی تعداد حارج ہوتی ہے کہ خدا کا حکم پاتے ہوئے ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا سینکڑوں بشر نافرمان ہوتے گئے۔ یہ قرین قیاس نہیں اور دوسرے اگر وہ سب نافرمان ہوگئے ہوںگے تو اپنے منصب سے معزول بھی ہوگئے ہوں گے اور پیشین گوئی غلط ثابت ہوگی۔
کیونکہ اس کے رو سے ہر صدی میں کم از کم ایک شخص کا اس منصب پرمتصرف رہنا ضروری ہے اور پیشین گوئی کو غلط مانیں تو وہ مسند ہی چاک ہو جاتی ہے۔ جس پر مرزا قادیانی کو بٹھانا مقصود ہے۔ ان سب حالات کی وجہ سے بزرگان سلف کے طرز عمل کو صحیح مانیں تولامحالہ مرزا قادیانی کے طریق پر نظر جمتی ہے کہ اسے انوکھی بات سمجھتے ہوئے کیاخیال قائم کریں۔ مگر غیروں کو خیال قائم کرنے سے کیا سروکار۔ ان کے ماننے والوں کو دیکھو۔ وہ سب بالاتفاق بشمول فرقہ قادیانی و لاہوری، مرزا قادیانی کی ہر ادا کو صحیح اورامر ربانی کے مطابق مانتے ہیں۔ جس سے ثابت ہوا کہ وہ سب مرزا قادیانی کو حقیقت میں منصب مجددیت اور محدثیت سے بالاتر جانتے ہیں۔
پس میں نے کیاغلطی کی یہ دعویٰ کرنے میں کہ فرقہ لاہوری کا صرف مجدد اورمحدث ماننا اور ان کے تمام طرزعمل کو صحیح جاننا ناقابل فہمید ہے اوراس میںکیا شک ہے کہ مجددیت و محدثیت سے بالاتر منصب قرآن وحدیث کی رو سے صر ف منصب رسالت ہے۔ پس جناب امام صاحب آپ کیوں مسلمانوں سے ناراض ہوتے ہیں۔ جبکہ وہ آپ کے فرقہ کو معترف رسالت مرزا کہتے ہیں۔
اورصرف یہی نہیں بلکہ مرزا قادیانی اپنے تئیں جناب حسین علیہ السلام کی ذات سے ایک طرف جناب مسیح علیہ السلام سے بھی افضل سمجھتے ہیں۔ پس اگر مرزا قادیانی کے اس دعوے کو درست مانا جائے۔ تو وہ صرف پیغمبرنہیں۔ بلکہ بہت بڑے اولوالعزم پیغمبرثابت ہوتے ہیں۔ ورنہ