مسلمانوں کا ایک فرقہ چار آئمہ مجتہدین کی اطاعت کرتا ہے مگر وہ سب ایک صدی کے اندر گزر چکے ہیں۔ ان سب کو صدی کے سر پر آنے والا مجدد نہیں کہہ سکتے۔ نہ ان میں سے کسی نے اپنی اطاعت کے واجب ہونے کا اعلان کیا ہے۔ نہ ان کو ماننے والے انہیں ان معنوں میں واجب الاطاعت مانتے ہیں کہ ان میں سے کسی کی اطاعت نہ کرنے سے عذاب آتا ہے۔ بلکہ اگر ابو حنیفہؒ کا مقلد کسی ایک مسئلہ میں ان کی اطاعت نہ کرے اور شافعیؒ یا مالکؒ کے مذہب پر فتویٰ دے یا عمل کرے اور شافعیؒ کا مقلد شافعیؒ کی تقلید چھوڑ کر حنفی ہو جائے۔ تو ایسی حالت میں کوئی مسلمان نہ کافر ہوتا ہے نہ گنہگار اور نہ مستحق عذاب۔ بلکہ اگر کوئی شخص ان آئمہ کے نام سے بھی واقف نہ ہو اور محمد رسول اﷲ ﷺ کو نبی مانتا ہو۔ تواس کے اسلام میں اس وجہ سے کوئی نقص پیدا نہیں ہوتا۔
محدث کے نام سے اسلام میں سینکڑوں اشخاص مشہور ہوئے ہیں۔ مگر نہ ان میں سے کسی نے اپنے تئیں واجب الاطاعت کہا۔ نہ کسی نے انہیں واجب الاطاعت مانا۔ مجدد کے نام سے شہرت پانے والے صرف ایک سرہندی بزرگوار ہیں۔ انہوں نے اپنے مکتوبات میں اگر اپنے تئیں مجدد کہا ہو اور اپنی اطاعت کی طرف بلایا ہو۔ تو یہ ان کا ذاتی فعل ہوگا۔ ورنہ ان کے وقت میں ان کی مخالفت کرنے والے موجود رہے ہیں۔ ان کے بعد ان کے حلقہ ارادت سے باہر کروڑوں مسلمان ہیں اور کسی ایک نقشبندی پیر کی طرف سے بھی دعویٰ نہیں ہوا کہ مجدد صاحب کی اطاعت سے باہر رہنے والے یا ان سے اختلاف رکھنے والے مستحق عذاب ہیں۔
بیشک اولی الامر کے معنی علماء ربانی کئے گئے ہیں اور فی الحقیقت چونکہ علماء ربانی احکام خدا اور رسول خدا کو عوام الناس سے بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ ہر مسئلہ کو ان کے خیالات اور اقوال کی روشنی میں دیکھنا بلکہ عامی کو ان کی تفسیر و تشریح کی تقلید کرنا بہتر اور اولیٰ تر ہے۔ مگر خاص انہیں بزرگوں کے اندر جن کو بالاتفاق علماء ربانی کہا جاتا ہے۔ احکام قرآن و حدیث کی تشریح میں باہم دگر ہزاروں اختلاف ہیں۔ اس لئے نہ ان سب کی اطاعت کر نا ممکن اور نہ ان میں سے کسی ایک کو سب سے زیادہ صائب الرائے قرار دے کر اسے اپنی تمام تر توجہات کا قبلہ بنانا جائز ہے اور یہ مسئلہ جناب کو معلوم ہو گا کہ تقلید جائز بھی ہو تو صرف فروع میں جائز ہے۔اصول مذہب کو اپنی تحقیق سے مانے تو آدمی سچا مسلمان ہوتا ہے۔
پس ہوشمند اور دانا مسلمان کے لئے یہی صحیح طریق کار ہے کہ جہاں تک ہو سکے خود احکام خدا اور رسولﷺ کو سمجھے اور جس جگہ اپنی ذہانت کام نہ دے۔ وہاں علماء ربانی کی تشریحات میں سے جو زیادہ قرین قیاس سمجھے۔ اس پر کاربند ہواور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور جو بارہ تیرہ