اسلامی محاکمہ
میں مذہب احمدی سے ایک حد تک شناساہوں۔ مجھے مرزا قادیانی سے گفتگو کرنے کا اتفاق ہو۔ مولوی عبدالکریم سیالکوٹی اور مولوی محمد احسن امروہوی سے تبادلہ خیالات کا موقع ملا ہے۔ مرزا قادیانی کی چند تصانیف اور مولوی محمد احسن کی ایک تصنیف دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا ہے۔ مرزا قادیانی کے بعد اس مذہب کے دو فرقوں میں منقسم ہونے سے بھی واقف ہوں اور اس کام کی خبر بھی سنتا رہا ہوں جو مرزا قادیانی کی زیست میںاوران کے بعد ان کے خلفاء اوربالخصوص خواجہ کمال الدین اورآپ کے ہاتھ سے سرانجام پاتارہاہے۔
اس لئے اس رسالہ نے آپ کے خیالات کو ایک متین اور خوشنما شکل میں پیش نظر لانے کا کام تو دیا مگر بفضلہ تعالیٰ میری معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ میں اب تک وہی سمجھتا ہوں جو پہلے سمجھتاتھا کہ فرقہ قادیانی کے خیالات اور اعمال ہربرٹ سپنسر کی اصطلاح میں Knowable (قابل فہمیدہیں)او ر فرقہ لاہوری کا تمام تاروپود Unknowable (نا قابل فہمید)قادیانی مرزا غلام احمد کو علانیہ نبی مانتے ہیں۔ جس کے ساتھ مرزا قادیانی کے اور ان کے تمام عقائد واعمال بالکل منطبق ہیں۔
بیشک اگر کوئی نبی ہو تو اس پر جس بانگ دھل کے ساتھ اس پیغام کا پہنچانا فرض ہے۔ جو اسے خدا کی طرف سے سپرد کیاگیا ہو۔ اسی بانگ دھل سے اس پراپنے دعویٰ رسالت کو پہنچانا اور لوگوںکو اس کے ماننے کی دعوت دینا بھی فرض ہے اوریہ اعلان کرنا بھی فرض ہے کہ جو شخص اس کی رسالت کا منکر ہوگا۔ وہ عذاب اخروی میں مبتلا ہوگا اور دنیا میں بھی اس پر عذاب آئے گا اوراس پر ایمان لانے والوں کا فرض ہے کہ منکرین کے ساتھ عبادت میں شریک نہ ہوں۔ نماز جنازہ میں شریک نہ ہوں۔ ان سے رشتہ مناکحۃ نہ کریں۔ حتیٰ کہ اپنے قبرستان بھی علیحدہ کرلیں تاکہ قبرستان میں جاکر جو دعا سب کے لئے مانگی جاتی ہے۔ اس کا حصہ منکرین تک نہ پہنچے۔
اس طرز عمل پر قادیانی فرقہ پوری استقامت کے ساتھ گامزن ہے اور بیشک اگر مرزا قادیانی نبی ہوں تو قادیانیوں کا یہ طرز عمل بالکل صحیح ہوگا۔ مگر لاہوری فرقہ مرزا قادیانی کو مجدد اور محدث مانتا ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ ہر صدی پرمجدد آتارہا ہے اور نیز مرزا قادیانی واجب الاطاعت تھے۔ حالانکہ امت محمدیہ ایسے ایک شخص سے بھی واقف نہیں۔ جس کو آنحضرت ﷺ کے بعد سب کے لئے واجب الاطاعت مانا گیاہو اورجس نے اپنی اطاعت کے لئے مرزا قادیانی کی طرح ببانگ دھل اعلان کیاہو اور جس کی اطاعت نہ کرنے سے طاعون یا کوئی اورعذاب آیا ہو۔