۱… میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں ہے۔
۲… میری حیثیت سنن انبیاء کی سی حیثیت ہے۔
۳… میں سماوی ہوں۔
۴… مسلمانوں کے تمام جھگڑے اورنزاعیں میں ایک دم میں حل کر سکتاہوں۔
۵… میں خداکی طرف سے مامور اورحکم بن کرآیاہوں۔
۶… جو معنی قرآن شریف کے میں کروںگا، وہی معنی صحیح ہوںگے۔
۷… جس حدیث کو میں صحیح کہوں گا، وہی صحیح ہوگی۔
ف ثانی… سبحان اﷲ!اپنی زبان سے اپنی تعریف کی تصدیق کرنا بے جا فخر نہیں ہے تو اورکیاہے؟سچ فرمایا اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ’’ان اﷲ لایحب من کان مختالا فخورا‘‘{تحقیق اﷲ نہیں دوست رکھتا اس شخص کو کہ ہے تکبر کرنے والا،شیخی کرنے والا۔}
(اخبار الحکم نمبر۱۰ص۸ مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۱ئ)میں مرزا قادیانی لکھتے ہیں:’’اجتہادی غلطی سب نبیوں سے ہوا کرتی ہے اور اس میں سب ہمارے شریک ہیں۔‘‘
ف… یہ نبوت کا دعویٰ نہیں تواورکیاہے؟
(اخبار الحکم نمبر ۴۴ج۴ص۵ مورخہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۰ئ)میں عبدالکریم لکھتا ہے:’’آج سے ۲۰ برس پیشتر خدا نے اس کو ابراہیم کہہ کر پکارا اور وہی وحی جو ابراہیم پر ہوئی تھی۔ ا س مسیح موعود پر ہوئی۔ ’’واتخذوامن مقام ابراہیم مصلے‘‘
(الحکم نمبر۳۰ ج۴ص۱۰مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۰ئ)میں عبدالکریم تحریر کرتا ہے ’’فلاوربک ‘‘ مسیح موعود کا الہام ہے اور اس کے اسرار اگر اس امر کے لئے کوئی اورثبوت نہ بھی ہو جب مامور و مرسل ہونا اس کے لئے کافی دلیل ہے۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ یہی آیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ الہام ہوئی۔ جس سے خدا کا منشاء ہے جو ایمان نبی کریم ﷺ پرمطلوب ہے۔ وہ ہی یہاں بھی مطلوب ہے۔‘‘ (کالم ۳ میں)ہماراایمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال اور اعمال و افعال کی نسبت ویساہی ہو جیسا ہم پرفرض ڈالاگیا ہے کہ ہم رسول اﷲ ﷺ پر رکھیں۔‘‘
(الحکم نمبر۱۸ج۴ص۹ مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۰ئ)میں عبدالکریم لکھتا ہے :’’یہ مزکی اور مطہر انسان حضرت سید عالم ﷺ کی خو،بو اور قوت اور نشان کے ساتھ آیا۔ بلکہ بعینہ وہی آیا۔ کیونکہ اس میں احیاء اور اماتت کی وہی قدرت ہے یہ ویسا ہی بشیر ونذیر ہے۔ یہ حجتہ اﷲ اورآیۃ اﷲ ہے۔‘‘