۴… امورغیبیہ اس پرظاہر کئے جاتے ہیں۔
۵… رسولوں اورنبیوں کی وحی کی طرح اس کی وحی کو بھی دخل شیطانی سے منزہ کیا جاتا ہے۔
۶… مغز شریعت اس پرکھولا جاتا ہے۔
۷… بعینہ انبیاء کی طرح مامور ہوکرآتاہے۔
۸… اس پرفرض ہوتا ہے کہ اپنے تئیں بآواز بلند ظاہر کرے۔
۹… اس سے انکار کرنے والا ایک حد تک مستوجب سزا ٹھہرتا ہے۔
۱۰… نبوت کے معنی بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ امور متذکرہ بالا اس میں پائے جائیں۔
ف ثانی… کیا اب بھی کوئی مرزائی جس کو طرفداری کا خیال نہ ہو اور حق بات پر چلنا منظور ہو اورخدا کا خوف دل میں ہو،انکار کرسکتا ہے کہ مرزا قادیانی نبوت اوروحی کے مدعی نہیں ہیں؟ کیونکہ بعینہ انبیاء کی طرح مامور ہوکر آنا اور رسولوں کی وحی کی طرح اپنی وحی کو دخل شیطانی سے منزہ سمجھنا یعنی مرزا قادیانی کا اپنی نسبت تحریر کرنا صاف ظاہر کر رہا ہے کہ نبوت اوروحی کے کھلے طورمدعی ہیں۔ خدا سے ڈر کر تعصب اور طرف داری چھوڑ کر حق کی جانب رجوع کرو۔
(الحکم نمبر۲۳ج۴ص۴مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۰۰ئ)میں مرزا قادیانی لکھتے ہیں:’’خدا تعالیٰ کی کلام میں مجھ سے یہ محاورہ نہیں ہے مجھ کو حضر ت خدا وند کریم محض اپنے فضل سے صدیق کے لفظ سے یاد کرتا ہے اور نیز دوسرے لفظوں سے جن کی سننے کی آپ کو برداشت نہیں ہوگی اور حضرت خداوند کریم نے مجھ کو اس خطاب سے معزز فرما کر ’’انی فضلتک علی العٰلمین قل ارسلت الیکم جمیعا‘‘یہ بات بخوبی کھول دی کہ اس ناکارہ کو تمام عالمین یعنی زمین کے باشندوں پر فضیلت بخشی گئی ہے۔ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی شخص اپنے دعویٰ پر آپ ہی گواہی دے اور پھر یہ لکھنا بھی کہ خدا نے مجھے کہا ہے ’’قل ارسلت الیکم جمیعا‘‘نبوت کا دعویٰ نہیں تواور کیاہے؟
(اخبار الحکم ج۴نمبر۴۱مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۰ء ص۴)میں مرزا قادیانی لکھتے ہیں:’’میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں ہے۔ بلکہ میری حیثیت سنن انبیاء کی سی حیثیت ہے۔ مجھے ایک سماوی مانو۔ پھر یہ سارے جھگڑے اور تمام نزاعیں جو مسلمانوں میں پڑی ہوئی ہیں۔ ایک دم میں طے ہوسکتی ہیں۔ جو خدا کی طرف سے مامور ہوکر حکم بن کرآیا ہے۔ جو معنی قرآن شریف کے وہ کرے گا وہی صحیح ہوںگے اور جس حدیث کو وہ صحیح قرار دے گا وہی صحیح ہوگی۔‘‘
ف… اس جگہ مرزا قادیانی نے اپنی تعریف کرنے میں چند باتوں پرفخر کیاہے۔