’’لوکان موسیٰ حیا ماوسعہ الااتباعی‘‘ {اگر آج موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو وہ پھر بھی میری تابع داری کرتے۔}
اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے (بلا تشبیہ) کہ جیسے کہ ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے ہوتے ہوئے دوسرا ڈپٹی کمشنر بعہدہ ڈپٹی کمشنری تو نہیں آسکتا۔ لیکن اس عہدہ سے معزول ہوکر اس ضلع کا شہری باشندہ بن سکتا ہے۔ اس سے وہاں کے موجودہ مقررہ ڈپٹی کمشنر کے اختیارات و حکومت میں کوئی خلل نہیں آسکتا۔ بلکہ اس کے اختیارات بدستور باقی رہیں گے۔ یوں ہی بلا تشبیہ سمجھئے کہ حضورﷺ کے زمانہ میں اگر کوئی دوسرا نبی آ جائے۔ تو آپﷺ کے منصب خاتمیت اور شان نبوت میں کوئی خلل نہیں آسکتا۔ کیونکہ وہ آپ ہی کا تابع ہوگا۔ یہ خلاصہ ہے مولانا کی عبارت کا۔
سوال نمبر۳… مولوی محمدقاسم صاحبؒ (تحذیر الناس ص۲۴)پرلکھتے ہیں اگر بالفرض حضورﷺ کے بعد بھی کوئی نبی آ جائے تو خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ یہ عبارت ببانگ دہل پکار کر ختم نبوت کا انکار کررہی ہے اورمولوی محمد قاسم نے ختم نبوت کی عمارت کو اپنی اس عبارت سے بالکل مسمار کر دیا ہے۔
جواب… اصلی عبارت (تحذیر الناس ص۴۴)ملاحظہ ہو:
’’ہاں اگر خاتمیت بمعنی اتصاف ذاتی بوصف نبوت لی جائے۔ جیسے اس ہیچمدان نے عرض کیا ہے۔ تو پھر سوا رسول اﷲ ﷺ کے کسی کو افراد مقصود بالخلق میں سے مماثل نبوی نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ اس صورت میں فقط انبیاء کے افراد خارجی ہی پر آپﷺ کی افضلیت ثابت نہیں ہوگی۔ افراد مقدرہ پر آپ کی افضلیت ثابت ہو جائے گی۔ بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔‘‘انتہیٰ
تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ ایک توحضرت مولانا صاحب نے خاتمیت ذاتی کا ذکر فرماتے ہوئے یہ تحریر فرمایا کہ اگر حضورﷺ کے بعد بھی کوئی نبی آ جائے تو خاتمیت ذاتی میں کوئی فرق نہ آئے گا۔ یہاں بھی خاتمیت زمانی کا ذکر تک نہیں۔ جس کی تفسیر جواب نمبر۲ میں گزر چکی ہے۔ نیز مولانا نے لفظ’’اگر‘‘ اور ’’بالفرض‘‘ فرما کر حضورﷺ کے بعد کسی نبی کا آنا محال قرار دیا