ہے۔ یہ لفظ بالفرض خود اس کے محال ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ بات محال ہے۔ کسی طرح ممکن نہیں۔ لیکن اگر بفرض محال تھوڑی دیر کے لئے اس محال کو بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی حضور ﷺ کی خاتمیت ذاتی اور آپ ﷺ کی افضلیت اور سعادت میں کوئی فرق نہیں آتا۔
یہ ایسا ہے جیسے حضورﷺ کا یہ فرمانا ’’لوکان بعدی نبیا لکان عمر‘‘ {یعنی اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتا} تو ظاہر ہے کہ حضور کریمﷺ کا مقصد یہ نہیں کہ آپﷺ کے بعد نبی کا آنا ممکن ہے۔ بلکہ یہ بتلانامقصود ہے کہ میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ بفرض محال اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتا۔ اس ارشاد سے حضورﷺ کی خاتمیت اور حضرت عمرؓ کی فضیلت ثابت کرنامقصود ہے۔
یہ ایسا سمجھو جیسے کوئی کہے کہ اگر ایک چاند نہیں۔ بلکہ ہزار چاند ہوں تب بھی ان سب کا نور آفتاب ہی سے مستفاد ہوگا۔ تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حقیقتاً ہزاروں چاند ہیں۔ بلکہ مقصود آفتاب کی فضیلت ثابت کرنا ہے کہ آفتاب تمام انوار اورشعاعوں کا ایسا خاتم اور منتہیٰ ہے کہ اگر بالفرض ہزارچاند بھی ہوں تو ان کا نور بھی اسی آفتاب سے حاصل ہوگا۔ اس ’’بالفرض ہزار چاند‘‘ کا جملہ کہنے سے آفتاب کی فضیلت دوبالا ہو جائے گی کہ آفتاب فقط اس موجودہ قمر سے افضل نہیں۔ بلکہ اگر جنس قمر کے اور بھی ہزاروں افراد فرض کرلئے جائیں تب بھی آفتاب ان سب سے افضل اور بہتر ہوگا۔
اسی طرح مولانا کا مقصود یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کی فضیلت اور برتری تما م افراد نبوت پر ثابت اورمستحکم ہے۔ خواہ وہ افراد ذہنی ہوں یا خارجی محقق ہوں یا مقدر ممکن ہوں یا محال فرضی ہوں یا فی نفس الامری اور یہ کہ حضور پرنورﷺ سلسلۂ نبوت کے علی الاطلاق خاتم ہیں۔ زماناً بھی اور ذاتاً بھی۔ مولانا نے کہیں بھی یہ نہیں فرمایا کہ حضور ﷺ کے بعد کسی نبی کا آنا شرعاً جائز ہے۔ بلکہ مولانا یہی فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کسی نبی کا وجود شرعاً تسلیم کرنا صریح کفر ہے۔ چنانچہ اس مضمون کے لئے مولانا کی چند عبارتیں ملاحظہ ہوں۔