بھی کوئی نبی مبعوث ہو جاتاتو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاتم النبیین ہونے میں کچھ فرق نہ آتا۔ مسئلہ ختم نبوت کا صاف اورصریح انکار ہے۔
جواب… (تحذیر الناس ص۱۳)کی عبارت ملاحظہ ہو: ’’عرض پرداز ہوںکہ اطلاق خاتم اس بات کو مقتضی ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کا سلسلۂ نبوت آپ ﷺ پر ختم ہوتا ہے۔ جیسے انبیاء گذشتہ کا وصف نبوت میں حسب تقریر مسطور اس لفظ سے آپ ﷺ کی طرف محتاج ہونا ثابت ہوتا ہے اورآپ(ﷺ) کا اس وصف میں کسی کی طرف محتاج نہ ہونا اس میں انبیاء گذشتہ ہوں یا کوئی اور،اسی طرح اگر فرض کیجئے کہ آپ کے زمانہ میں بھی اس زمین میں یا کسی اورزمین میں یا آسمان میں کوئی نبی ہو۔ تو وہ بھی اس وصف نبوت میں آپؐ ہی کا محتاج ہو گا اور اس کا سلسلۂ نبوت بہرطور آپ ہی پر ختم ہوگاانتہیٰ۔‘‘
سو اس عبارت میں ناظرین غور کریں۔ ان پر یہ بات صاف واضح ہو جائے گی کہ اس صفحہ کی عبارت میں خاتمیت زمانی کا ذکر ہی نہیں۔ بلکہ خاتمیت ذاتی کاذکر ہے اور بیشک زمانۂ نبوی میں کسی نبی کے ہونے سے اس میں کوئی خلل نہیں آتا۔ کیونکہ یہاں خاتمیت زمانی کا تو کوئی ذکر ہی نہیں۔ بلکہ علت اوردلیل کا ذکر ہے۔ جس کو خاتمیت یا ذاتی کہیے سو مولانا نے اس آیت کی تفسیر کی ہے:
’’واذاخذاﷲ میثاق النّبیین لما اٰتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ‘‘{یعنی اﷲ تعالیٰ نے تمام نبیوں سے وعدہ لیا کہ میں تم کو کتاب و دانش عطا کروں گا پھر تمہارے پاس ایک عظیم الشان پیغمبر آئے گا۔ جو تمہارے پاس والے علوم کی تصدیق کرے گا۔ تو تم اس پر ایمان لاؤ گے اور اس کے حامی و مددگار بنو گے۔}
تو اس آیت سے صاف معلوم ہوا کہ اگرحضور ﷺ کے زمانہ میں کوئی نبی آ جائے تو وہ آپﷺ ہی کا حامی اور مددگار ہوگا۔ یہ آپ پر ایمان لانا اور آپ کی مدد کرنا جو نص قرآنی سے ثابت ہے۔ اس کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ نبی آپ کے زمانہ ہی میں آئیں۔ لیکن وہ آپﷺ کے محتاج اورتابع اورامتی ہوکر آئیں گے۔ اسی کی تائید حدیث ترمذی میں ہے: