بسم اﷲ الرحمن الرحیم۰نحمد اﷲ رب العٰلمین
والصلوٰۃ علی نبیہ خاتم النّبیین امابعد!
حضرت ابوالدردائؓ سے روایت ہے کہ ’’لایفقّہ الرجل کل الفقھہ حتیٰ یجعل للقران وجوھا‘‘{آدمی اس وقت تک کامل فقیہ نہیں جب تک کہ قرآن پاک کے لئے متعدد توجیہات نہ نکالے۔} ونیز ’’فی الاتقان ان المراد ان یری اللفظ الواحد یحتمل معانی متعددۃ فیحملہ علیہا اذاکانت متضادۃ ولا یقتصربہ علی معنی واحد‘‘ {ایک لفظ کو متعدد معانی کا متحمل دیکھے اور پھر وہ سب معانی اس سے مراد لے اور کسی ایک ہی معنی پر حصر نہ کرے بشرطیکہ وہ معانی آپس میں متضاد نہ ہوں۔}
اس کے بعد میں مناسب سمجھتاہوں کہ رفع خلجان کے لئے ان تینوں فقروں کا صحیح مطلب بھی عرض کر دوں۔ جن کو توڑ جوڑ کر مخالفین نے ایک کفریہ مضمون بنایا ہے۔ لیکن اس کے لئے ضرورت ہے کہ پہلے اختصار کے ساتھ لفظ خاتم النّبیین کی تفسیر کے متعلق مولانا نانوتویؒ کا مسلک واضح کر دیا جائے۔
بطور تمہید میں یہ بتلا دیناچاہتاہوں کہ رسول خدا ﷺ کے لئے نفس الامر میں دو قسم کی خاتمیت ثابت ہے۔ ایک زمانی جس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ آپ سب سے آخری نبی ہیں۔ دوسری خاتمیت ذاتی جس کامطلب یہ ہے کہ آپ وصف نبوت کے ساتھ بالذات موصوف ہیں اور دوسرے انبیاء علیہم السلام بالعرض جس طرح کہ آفتاب روشنی کے ساتھ باذن خدا بلا کسی دوسرے واسطے کے موصوف ہے اور دوسرے ستارے اس کے واسطے سے روشن ہیں۔ ایسے ہی حق تعالیٰ نے حضورﷺ کو براہ راست نبوت عطاء فرمائی اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کو حضور سراپا نور کے واسطے سے او ر ایسی خاتمیت کا نام ہماری اصطلاح میں خاتمیت ذاتیہ ہے۔ بہرحال مولانا نوتویؒ کی تحقیق یہ ہے کہ قرآن عزیز میں جو آنحضرت ﷺ کو خاتم النّبیین فرمایا گیاہے۔ اس سے آپ کے لئے دونوں قسم کی خاتمیت ثابت ہوتی ہے۔ ذاتی بھی اور زمانی بھی اور عوام اس سے محض ایک قسم کی خاتمیت مراد لیتے ہیں۔ یعنی صرف زمانی۔
پس تفسیر خاتم النّبیین کے متعلق حضرت مولانامحمدقاسمؒ کے مسلک کا خلاصہ صرف اسی