قدر ہے جس کا حاصل بس یہی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ خاتم زمانی بھی ہیں اور خاتم ذاتی بھی اور یہ دونوں قسم کی خاتمیت آپ کے لئے قرآن کریم کے اسی لفظ خاتم النّبیین سے نکلتی ہے۔
خاتمیت زمانی کے معنی یہ ہیں کہ حضور ﷺ سب سے اخیر زمانہ میں تمام انبیاء علیہم السلام کے بعد مبعوث ہوئے اور اب آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی بھی مبعوث نہیں ہوگا اور خاتمیت ذاتی کے معنی یہ ہیں کہ نبوت و رسالت کے تمام کمالات و مراتب حضور بابرکاتﷺ پر ختم ہیں اور نبوت چونکہ کمالات علمیہ میں سے ہے۔ اس لئے خاتم النبیین کے یہ معنی ہوں گے کہ جو علم کسی بشر کے لئے ممکن ہے۔ وہ آپ ؐ پر ختم ہوگیا۔
تو حضور پر نورﷺ دونوں اعتبار سے خاتم النبیین ہیں۔ زمانے کے اعتبار سے بھی آپ خاتم ہیں اورمراتب نبوت و کمالات رسالت کے اعتبار سے بھی آپ خاتم ہیں۔ حضور ﷺ کی خاتمیت فقط زمانی نہیں۔ بلکہ زمانی اورذاتی دونوں قسم کی خاتمیت حضور ﷺ کو حاصل ہے۔ اس لئے کمال مدح جب ہی ہوگی کہ جب دونوں قسم کی خاتمیت آپ ؐ پر ثابت ہو۔ بس یہ ہے حاصل حضرت مولانا کی اس بلندپایۂ تحقیق کا۔
اب مخالفین کی طرف سے تحذیر الناس کی تین عبارتوں پر جو اعتراض کئے گئے ہیں۔ ان کے جوابات نمبروار سوال اور جواب کی شکل میں ناظرین کرام کی خدمت میں عرض کئے جاتے ہیں۔
سوال نمبر۱… تمہارے مولوی قاسم صاحب نانوتویؒ (تحذیر الناس ص۳) پر لکھا ہے کہ حضورﷺ کو خاتم بایں معنی لینا کہ آپ کا زمانہ سب انبیاء علیہم السلام کے بعد ہے۔ یہ عوام کا خیال ہے تو عوام سے مراد ناسمجھ لوگ ہوئے۔ اس لئے اس عبارت کا صاف و صریح مطلب ہوا کہ خاتم النبیین کے معنی سمجھنا کہ حضورﷺ سب سے پچھلے نبی ہیں۔ یہ نا سمجھ لوگوں کا خیال ہے۔ سمجھ دار لوگوں کے نزدیک یہ معنی غلط ہیں۔
جواب… تحذیر الناس محولہ بالاملاحظہ ہو:
بعد حمد وصلوٰۃقبل عرض جواب یہ گزارش ہے کہ اوّل معنی خاتم النّبیین معلوم ہونے چاہئیں تاکہ فہم جواب میںکچھ دقت نہ ہو۔ سو عوام کے خیا ل میں تو رسول اﷲ ﷺ کا خاتم ہونا بایں