ہے اور پہلی کتابیں تورات اور انجیل اس دخل کی مصدق ہیں۔‘‘
(مثلہ ضرورۃ الامام ص۱۷،۱۸، خزائن ج۱۳ ص۴۸۷ تا ۴۸۹)
(ضرورۃ الامام ص۱۷، خزائن ج۱۳ص۴۸۸)’’پس جو شخص شیطانی الہام کا منکر ہے۔ وہ انبیاء علیہم السلام کی تمام تعلیموں کا انکاری ہے اور نبوت کے تمام سلسلہ کا منکر ہے۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چار سو نبی کو شیطانی الہام ہواتھا۔‘‘
(۲)انبیاء کا نعوذ باﷲ غاصب ہونا اورجھوٹ بولنا اور فاحشات سے میل جول
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۹۷، خزائن ج۵ص۵۹۷)’’یاد رہے کہ اکثر ایسے اسرار دقیقہ بصورت اقوال یا افعال انبیاء علیہم السلام سے ظہور میں آتے رہے ہیں کہ جو نادانوں کی نظر میں سخت بیہودہ اور شرمناک کام ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مصریوں کے برتن اور پارچات مانگ کر لے جانا اور پھر اپنے صرف میں لانا اور حضرت مسیح کا کسی فاحشہ کے گھر چلے جانا اور اس کا عطر پیش کردہ جو حلال وجہ سے نہیں تھا،استعمال کرنا اور اس کے لگانے سے روک نہ دینا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تین مرتبہ ایسے طور پر کلام کرنا جو بظاہر دروغ گوئی میں داخل تھا۔‘‘
(مثلہ تریاق القلوب ص۱۲۴،۱۲۷، خزائن ج۱۵ص۴۲۰،۴۲۴، اربعین ص۲۱ نمبر۴،۳۲ نمبر۲)
۳… ’’انبیاء اور رسول حرام زادے(عیاذا باﷲ!) ہو سکتے ہیں۔ ‘‘
(تریاق القلوب ص۶۵،۶۶، خزائن ج۱۵ص۲۷۶،۲۷۷)
اولیاء اﷲ اور رسول اور نبی جن پر خدا کا رحم اورفضل ہوتا ہے اور خدا ان کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ وہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔
۱… ایک وہ جو دوسروں کی اصلاح کے لئے مامور نہیں ہوتے…ان کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایسے عالی خاندان سے اور عالی قوم سے ہوں۔ جو علم نسب اور شرافت اور نجابت اور امارت اور ریاست کا خاندان ہو۔ بلکہ آیت کریمہ ’’ان اکرمکم عند اﷲ اتقاکم‘‘ صرف ان کی تقویٰ دیکھی جاتی ہے۔ گو وہ دراصل چوہڑوں میں سے ہوں یا چماروں میں سے۔ یا مثلاً کوئی ان میں سے ذات کا کنجر ہو۔ جس نے اپنے پیشہ سے توبہ کر لی ہو یا ان قوموں میں سے ہو جو اسلام میں دوسری قوموں کی خادم اورنیچی قومیں سمجھی جاتی ہیں۔ جیسے حجام، موچی، تیلی، ڈوم، سقے، قصائی، جولاہے، کنجڑے تنبولی، دھوبی، مچھیرے، بھڑ بھونجے، نانبائی وغیرہ یا مثلاً ایسا شخص کہ جو اس کی ولادت میں ہی شک ہو کہ آیا حلال کا ہے یا حرام کاہے…(ص۶۷، خزائن ج۱۵ ص۲۷۹، ۲۸۰) …لیکن ایک دوسری قسم کے ولی ہیں۔ جو رسول یا نبی یا محدث کہلاتے ہیں اور وہ خداتعالیٰ کی