ماہمہ پیغمبر انرا چاکریم
ہمچو خاک اوفتادہ بردرے
لیکن درپردہ وہ انبیاء کی سخت توہین کا مرتکب ہوتا ہے۔
پہلا حصہ
۱… (براہین احمدیہ ص۱۵، خزائن ج۱ ص۲۳)
طعنہ برپا کان بود
خود کنی ثابت کہ ہستی فاجری
۲… (براہین احمدیہ ص۱۰۱، خزائن ج۱ ص۹۰)’’بخدمت صاحبان یہ بھی عرض ہے کہ یہ کتاب کمال تہذیب اور غایت آداب سے تصنیف کی گئی ہے اور اس میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس میں کسی بزرگ یا پیشوا کسی فرقہ کی کسرشان لازم آوے اور خود ہم ایسے الفاظ کو صراحتہً یا کنایتہ اختیار کرنا خبث عظیم سمجھتے ہیں اور مرتکب ایسے امر کو پرلے درجے کا شریر النفس خیال کرتے ہیں۔‘‘
۳… (آریہ دھرم ص۵۵،خزائن ج۱۰ص۶۲)’’ایسا ہی وہ شخص بھی اس سے کچھ کم بد ذات نہیں جو مقدس اورراست بازوں پر بے ثبوت تہمت لگاتا ہے…ہم سوچتے ہیں کہ کیوں خدا تعالیٰ کے مقدس پیارے بندوں پر ایسے حرام زادے جو سفلہ طبع دشمن ہیں، جھوٹے الزام لگاتے ہیں۔‘‘
۴… (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۷۱، خزائن ج۲۱ص۹۱)’’جن لغزشوں کا انبیاء علیہم السلام کی نسبت خدا تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ جیسا کہ آدم علیہ السلام کا دانہ کھانا اگر تحقیر کی راہ سے ان کا ذکر کیا جائے تو یہ موجب کفر اور سلب ایمان ہے۔ کیونکہ وہ مقبول ہیں۔‘‘
دوسرا حصہ کہ مرزا نے کیا انبیاء کو سمجھا؟
۱… انبیاء کی وحی و الہام میں شیطانی دخل ہوا کرتا ہے اور یہ قرآن و بائبل سے ثابت ہے۔ (ازالہ اوہام ص۶۲۸، خزائن ج۳ ص۴۳۹)’’جب انسان اپنے نفس اور خیال کو دخل دے کر کسی بات کے استکشاف کے لئے بطور استخارہ و استخبار وغیرہ کے توجہ کرتا ہے۔ خاص کر اس حالت میں کہ جب اس کے دل میں یہ تمنا مخفی ہوتی ہے کہ میری مرضی کے موافق کسی کی نسبت کوئی برا یا بھلا کلمہ بطور الہام مجھے معلوم ہو جائے تو شیطان اس وقت اس کی آرزو میں دخل دیتا ہے اور کوئی کلمہ اس کی زبان پر جاری ہوجاتا ہے اور دراصل وہ شیطانی کلمہ ہوتا ہے۔ یہ دخل کبھی انبیاء اور رسولوں کی وحی میں بھی ہو جاتا ہے…جس حالت میں قرآن کریم کی رو سے الہام اور وحی میں دخل شیطانی ممکن