۴۱۴) میں دو دفعہ ذکر کیا۔ لیکن اپنی عادت کے موافق اس میں تحریف کر کے ’’من السمائ‘‘ کا لفظ دونوں جگہ سے کاٹ دیا۔
نیز مرزا نے صحیح مسلم میں خود آسمان کا لفظ تسلیم کیا ہے۔ جیسا کہ اسی مضمون میں کتاب ہذا میں ازالہ اوہام کی عبادت درج ہو چکی ہے۔ علاوہ ازاں مرزا نے ’’ابن واطیل‘‘ کی روایت سے بھی آسمان کا لفظ مانا ہے۔ دیکھو (تحفہ گولڑویہ ص۱۱۳، خزائن ج۱۷ ص۲۸۱)
۶… (حقیقت الوحی ص۱۸۹حاشیہ، خزائن ج۲۲ص۱۹۶)’’بعض کتب میں زبان پارسی میں یہ حدیث لکھی ہے’’این مشت خاک را گر نہ بخشم چہ کنم۔‘‘ یہ بالکل جھوٹ ہے، کیا فارسی میں بھی کوئی حدیثیں ہیں۔
۷… (حقیقت الوحی ص۱۸۹ خزائن ج۲۲ص ۱۹۶)میں قرآن مجید کی آیت کا صریح انکار کر دیا۔ ’’خدا کی رحمت ہے کہ وعید کی پیش گویوں میں منسوخی کا سلسلہ اس کی طرف سے جاری ہے۔ یہاں تک کہ جو جہنم میں ہمیشہ رہنے کا وعید قرآن شریف میں کافروں کے لئے ہے۔ وہاں بھی یہ آیت موجود ہے۔’’الا ماشاء ربک ان ربک فعال لما یرید۔‘‘یعنی کافر ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ لیکن اگر تیرا رب چاہے ۔ کیونکہ وہ جو کچھ چاہتا ہے۔ اس کے کرنے پر قادر ہے۔ لیکن بہشتیوں کے لئے ایسا نہیں فرمایا۔ کیونکہ وہ وعدہ ہے، وعید نہیں۔‘‘
حاشیہ میں یہ لکھا کہ’’قرآن مجید میں کفار اور مشرکین کی سزا کے لئے بار بار ابدی جہنم کا ذکر ہے اور بار بار فرمایا ہے’’خالدین فیہا ابداً‘‘اور پھر باوجود اس کے قرآن مجید میں دوزخیوں کے حق میں ’’الا ماشاء ربک‘‘بھی موجود ہے۔‘‘
اس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ آیت میں جملہ استثنائیہ ’’الا ماشاء ربک‘‘ دوزخیوں کے حق میں ہے۔ مگر بہشتیوں کے حق میں نہیں۔ کیونکہ وعدہ اور وعید میں فرق ہے۔ یہ کس قدر جرأت سے کذب بیانی کی جاتی ہے۔ کیونکہ پارہ نمبر۱۲ میں بہشتیوں اور دوزخیوں دونوں کے حق میں ’’الا ماشاء ربک‘‘وہیں موجود ہے۔ گویا جو آیت سامنے پڑی ہے۔ اس کا بھی انکار کر دیا۔ اب اس کذاب پر کوئی کیا اعتبار کرے۔
مرزا کی نظر میں انبیاء کرام علیہم السلام
زبانی طور پرمرزا انبیاء علیہم السلام کا مداح بننا چاہتا ہے۔ جیسے وہ کہتا ہے (براہین احمدیہ ص۱۶، خزائن ج۱ ص۲۳)